Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 218
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
البتہ جو لوگ ایمان پر جمے رہیں گے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ اللہ کی رحمت کے متوقع ہیں۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اہل استقامت کا مقام : کفار کے ظلم و ستم سے گھبرا کر مرتد ہوجانے والوں کا انجام بتانے کے بعد ان لوگوں کا مقام بھی بتا دیا جو کفار کی ان تمام ستم رانیوں کے باوجود اپنے ایمان پر جمے رہیں گے اور ہجرت و جہاد کی بازیاں کھیلیں گے۔ ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ بیشک اس بات کے سزا وار ہیں کہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں۔ موقع و محل دلیل ہے کہ یہاں لفظ“ امنوا ”اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے، اسی وجہ سے ہم نے اس کا ترجمہ“ اپنے ایمان پر جمے رہے ”کیا ہے۔ اس وقت ہجرت اور جہاد مسلمانوں پر بیک وقت دونوں واجب تھے، بیت اللہ کی آزادی اور فتنہ کے قلع قمع کے لیے جہاد کا بھی حکم ہوچکا تھا اور نبی ﷺ کی نصرت اور ایمان کے تحفظ کے لیے ہجرت کا بھی، اور یہ دونوں ہی معرکے بڑے سخت تھے اس وجہ سے ان دونوں ہی باتوں کا ذکر فرمایا۔ اس میں مسلمانوں کے لیے یہ رہنمائی بھی تھی کہ کفار کی ستم رانیوں کا جواب ارتداد نہیں بلکہ ہجرت اور جہاد ہے۔ جو لوگ یہ بازیاں کھیل سکیں ان کے متعلق یہ فرمایا کہ یہ اللہ کی رحمت کے امید وار ہوسکتے ہیں۔ یعنی یقین تو ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد بھی کسی کو نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ کوئی بھی اپنے عمل سے نجات نہیں حاصل کرے گا بلکہ جس کو بھی نجات حاصل ہوگی خدا کی بخشش اور اس کی مہربانی ہی سے ہوگی، چناچہ آگے فرما دیا وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔
Top