Al-Qurtubi - Al-Baqara : 218
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امید وار ہیں اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے
مسئلہ نمبر : (12) ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” ان الذین امنوا والذین ھاجروا “۔ الآیہ۔ جندب بن عبداللہ اور عروہ بن زبیر وغیرہما نے کہا ہے کہ جب واقد بن عبداللہ تمیمی ؓ نے عمرو بن حضرمی کو شہر حرام میں قتل کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس مال کا خمس لینے سے توقف فرمایا جو آپ کے لئے مال اور دو قیدیوں کی صورت میں حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو عطا کیا گیا تھا، تو مسلمانوں نے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ وہ ان پر شاق گزرنے لگا، تو اللہ تعالیٰ نے شہر حرام میں اس آیت کے ساتھ ان کی تلافی فرمائی اور ان سے غم اور پریشانی کو دور فرما دیا۔ اور یہ خبر دی کہ ان کے لیے ہجرت کرنے والے اور جہاد کرنے والے کا ثواب ہے، انہی کی طرف اس قول میں اشارہ فرمایا ہے (آیت) ” ان الذین امنوا “۔ پھر یہ آیت ہر اس کے حق میں باقی رہی جس نے وہ عمل کیا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب تو نہیں کیا لیکن ان کے لئے کوئی اجر بھی نہیں ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” ان الذین امنواوالذین ھاجروا “۔ الی آخر الآیہ۔ اور ہجرت کا معنی ہے ” الانتقال من موضع الی موضع “ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف منتقل ہونا اور دوسری جگہ کے لئے ایثار کرتے ہوئے پہلی کو ترک کرنے کا قصد کرنا۔ ہجر وصل کی ضد ہے۔ (کہا جاتا ہے) ” ھجرہ ھجرا وھجرانا “ (فلاں نے اسے چھوڑ دیا) اور اس کا اسم الھجرۃ ہے۔ اور ” المھاجرۃ من ارض الی ارض “ کا معنی ہے دوسری جگہ کے لئے پہلی کو چھوڑ دینا، ترک کردینا۔ اور ” التھاجر “ کا معنی ’ التقاطع “۔ (باہمی مقاطعہ کرنا، تعلق توڑ دینا) ہے۔ اور جس نے ” المھاجرۃ “ کی تعریف یہ کی ہے ” الانتقال من البادیۃ الی الحاضرۃ “ یعنی دیہات سے شہر کی طرف منتقل ہونا، تو اس نے اس سبب سے یہ وہم دلایا ہے کیوں کہ عرب میں اغلبا ایسا ہی ہوا ہے اور اس قول کے مطابق اہل مکہ مہاجرین نہیں ہیں۔ اور رہا ” وجاھد “ تو یہ ” جھد “ سے باب مفاعلہ ہے، جب کوئی پوری کوشش اور محنت صرف کر دے (اس کا مصدر) مجاہدۃ وجہادا ہے۔ اور اجتہاد اور تجاہد کا معنی ہے بذل الوسع والمجھود پوری طاقت، صلاحیت اور محنت کو صرف کردینا۔ اور الجھاد بالفتح کا معنی ہے : سخت اور مضبوط زمین۔ اور ” ویرجون “ کا معنی ہے وہ طمع اور حرص رکھتے ہیں اور حصول قرب کے متمنی ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ” یرجون “ کا کلمہ ان کی مدح اور تعریف میں بیان فرمایا ہے کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ جنت کی طرف جائے گا اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں آخری حد کو پہنچا ہوا ہو، اس کے دو سبب ہیں : ایک یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا خاتمہ کون سے عمل پر ہوگا اور دوسرا یہ ہے : تاکہ وہ اپنے عمل پر توکل اور بھروسہ نہ کرلے۔ اور رجا (امید) عام ہوتی ہے اور رجا کے ساتھ ہمیشہ خوف بھی ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے، جیسا کہ خوف کے ساتھ رجا (امید) ہوتی ہے۔ گویا رجا ایک طویل اور وافر امید کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے : رجوت فلانا رجوا ورجاء ورجاوۃ “ (میں فلاں سے امید باندھے ہوئے ہوں) کہا جاتا ہے : ” ما اتیتک الا رجاوۃ الخیر “۔ (میں تیرے پاس فقط خیر اور بھلائی کی امید لے کر آیا) اور ” ترجیتہ وارتجیتہ اور رجیتہ یہ سب رجوتہ کے معنی میں ہیں۔ بشر نے اپنی بیٹی کو مخاطب ہو کر کہا ہے : فرجی الخیر وانتظری ایابی اذا ما القارظ العنزی ابا۔ اس میں ترجی امید کے معنی میں ہی مذکور ہے، یعنی تو خیر اور بھلائی کی امید رکھ اور میرے لوٹنے کا انتظار کر۔ ” وما لی فی فلان رجیۃ “۔ ای ما ارجو “۔ یعنی میں فلاں کے بارے میں کوئی امید نہیں رکھتا۔ اور کبھی ” الرجوا اور الرجاء خوف کے معنی میں ہوتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” مالکم لا ترجون للہ وقارا “۔ (سورۃ نوح : 12) ترجمہ : یعنی کیا ہے تمہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے بارے میں ڈرتے نہیں۔ ابو ذؤیب نے کہا ہے : اذا لسعتہ النحل لم یرج لسعھا وخالفھا فی بیت نوب عوامل : اس میں لم یرج خوف اور ڈر کے معنی میں مذکور ہے۔ یعنی جب شہد کی مکھی نے اسے ڈسا تو اسے اس کے ڈسنے کا کوئی خوف اور پرواہ نہ ہوئی۔ اور ” الرجائ “ الف مقصورہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے کنوئیں کی طرف اور اس کے دونوں کنارے اور ہر طرف اور کنارہ رجا کہلاتا ہے (1) (الصحاح مادہ ” رجا “ ) لوگوں میں سے عوام اس قول میں خطا کر جاتے ہیں : یا عظیم الرجاء کہ وہ اسے الف مقصورہ کے ساتھ پڑھتے ہیں نہ کہ الف ممدودہ کے ساتھ۔ (یعنی اسے مد اور ہمزہ کے ساتھ پڑھنا چاہئے) آیت نمبر : 219۔ ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس، واثمھما اکبر من نفعھما “۔ میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ ” یسئلونک “ اس میں سوال کرنے والے مومنین ہیں۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور ” الخمر خمر “ سے ماخوذ ہے جبکہ وہ ڈھانپ لے، چھپا لے۔ اور اسی سے خمار المراۃ عورت کی اوڑھنی اور دوپٹہ ہے۔ اور ہر وہ شے جو کسی شے کو ڈھانپ لے تو کہا جاتا ہے : فقد خمرہ “ اور اسی سے ” خمروا ائیتکم “ ہے (2) (بخاری شریف : باب : خمس من الدراب الخ حدیث نمبر : 3069، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تم اپنے برتن ڈھانپ لو) اور خمر (شراب) عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور ماؤف کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے گھنے درخت کو الخمر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے نیچے والی شے کو ڈھانپ لیتا ہے اور اسے چھپا لیتا ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے : اخمرت الارض کثر خمرھا (زمین نے ڈھانپ لیا اس کے درخت زیادہ ہوگئے) جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : الا یازید والضحاک سیرا فقد جاوزتما خمر الطریق : خبردار ! اے زید اور ضحاک ! دونوں چلو (خوب تیز چلو) تحقیق تم راستے کے درختوں سے گزر چکے ہو۔ یعنی تم ہمت اور جرات کے ساتھ چلو، تحقیق تم نے اسی نشیبی زمین کو عبور کرلیا ہے جہاں بھیڑیے وغیرہ چھپے رہتے ہیں۔ عجاج ایک لشکر کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے جو جھنڈوں اور لشکروں کے ساتھ بغیر کسی کمزوری کے چل رہا ہے : فی لامع العقبان لایمشی الخمر یوجہ الارض ویستاق الشجر : اسی سے ان کا یہ قول بھی ہے : دخل فی غمار الناس وخمارھم وہ لوگوں کی جماعت اور ان کی بھیڑ میں داخل ہوا۔ یعنی وہ خوفناک جگہ میں داخل ہوگیا۔ چونکہ شراب (خمر) عقل کو چھپا لیتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے اس وجہ سے اسے خمر کا نام دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خمر کو خمر کا نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اسے چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس نے پالیا جیسا کہ کہا جاتا ہے : اختمرالعجین “ یعنی وہ اپنے ادراک کو پہنچ گیا۔ وخمر الرای، یعنی رائے چھوڑ دی گئی یہاں تک کہ اس میں وجہ ظاہر ہوگئی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ خمر کو خمر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عقل کو خلط ملط کردیتی ہے۔ یہ المخامرہ سے ہے اس کا معنی ہے المخالطۃ (باہم خلط ملط ہوجانا) اسی سے ان کا یہ قول ہے : دخلت فی خمار الناس “ یعنی میں لوگوں کے ساتھ مل جل گیا۔ نتیجتا تینوں معانی بالکل قریب قریب ہیں۔ پس خمر کو پہلے چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس نے (نشہ کو) پالیا، پھر اس نے عقل کو خلط ملط کردیا، پھر اسے ڈھانپ دیا تو گویا اس میں اصل معنی المستر (ڈھانپنا) ہوا۔ اور الخمر : یہ انگور کا وہ پانی ہے جو ابل جائے یا اسے پکایا جائے اور اس کے علاوہ جو شے بھی عقل کو ماؤف کر دے گی تو وہ اسی کے حکم میں ہوگی، کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ ہر قسم کا جو احرام ہے۔ اور بلاشبہ ان میں سے ذکر صرف میسر کا کیا گیا ہے۔ تو حکما تمام اقسام کو میسر پر ہی قیاس کیا گیا ہے۔ حالانکہ میسر صرف وہ جوا ہوتا ہے جو جزر (ذبح شدہ اونٹ) میں ہو، تو اسی طرح ہر وہ شے جو خمر کی طرح ہوگی تو وہ اسی کے قیام مقام ہوگی (یعنی حکم تمام کا ایک ہوگا) مسئلہ نمبر : (2) جمہور امت کا نظریہ یہ ہے کہ انگور کی شراب کے علاوہ ہر وہ مشروب جس کی کثیر مقدار نشہ میں مبتلا کر دے تو وہ حرام ہے چاہے اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر ہو۔ اور اسے پینے کی صورت میں حد واجب ہوگی۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح)، ثوری، ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علہیم اور فقہاء کوفہ کی ایک جامعت نے کہا ہے : انگور کی شراب کے علاوہ جس مشروب کی کثیر مقدار نشہ میں مبتلا کر دے تو وہ حلال ہے، لہذا اس کے سبب جو کوئی نشہ میں مبتلا ہوگیا جبکہ نشے کی حد تک پہنچنے کا اس نے قصد اور ارادہ نہ کیا تو اس پر حد شرب نہ ہوگی۔ یہ قول ضعیف ہے۔ عقل وخبر (نقل) اس کی تردید کرتے ہیں۔ اس کا تفصیلی بیان سورة المائدہ اور النحل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ : مسئلہ نمبر : (3) بعض مفسرین نے کہا ہے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عزت و کرامت اور برواحسان میں سے کوئی شے نہیں چھوڑی مگر وہ اس امت کو عطا فرمائی ہے، اس کے احسان اور کرامت میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ان پر تمام احکام شرعیہ کو یکبارگی واجب نہیں کیا بلکہ ان پر تدریجا اور یکے بعد دیگرے احکام نازل فرمائے، پس شراب کے حرام ہونے کا حکم بھی اسی طرح نازل ہوا۔ اور یہی پہلی آیت ہے جو شراب کے بارے میں سب سے پہلے نازل ہوئی، پھر اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔ (آیت) ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ (النسائ : 42) ترجمہ : تم نماز کے قریب نہ جاؤ درآنحالیکہ تم نشہ میں ہو) پھر فرمایا : (آیت) ” انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضآء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ، فھل انتم منتھون “۔ (المائدہ : 91) ترجمہ : یہی تو چاہتا ہے شیطان کہ ڈال دے تمہارے درمیان عدوات اور بغض شراب اور جوئے کے ذریعہ اور روک دے تمہیں یاد الہی سے اور نماز سے تو کیا باز آنے والے ہو ؟ ) پھر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” انما الخمروالمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ “۔ (المائدہ : 90) ترجمہ : یہ شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر سب ناپاک ہیں شیطان کی کارستانیاں ہیں سو ان سے بچو) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : ” والمیسر “ اس سے مراد عرب کا جوا ہے جو تیروں کے ساتھ کھیلا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے آدمی سے اپنی بیوی اور ماں کی شرط لگا دیتا تھا پھر جو کوئی جوئے میں اپنے ساتھی پر غالب آجاتا وہ اس کا مال اور اس کی بیوی لے جاتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرات مجاہد، محمد بن سیرین، حسن، ابن مسیب، عطا، قتادہ، معاویہ ابن صالح، طاؤس، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی بیان کیا ہے : ہر وہ کھیل جس میں قمار (جوا) ہو چاہے چوسر ہو یا شطرنج وغیرہ سو وہ جوا (میسر) ہی ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کا اخروٹ اور نرد کے مہروں کے ساتھ کھیلنا بھی، سوائے ان کے جن میں اس کو مباح قرار دیا گیا ہے مثلا گھوڑ دوڑ میں مقابلہ اور حقوق کی تقسیم اور علیحدگی کے لئے قرعہ اندازی کرنا وغیرہ۔۔۔۔۔ تفصیلی بیان آگے آئے گا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : شطرنج عجم کا جوا ہے اور ہر وہ کھیل جس کے ساتھ شرط لگائی جائے وہ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء کے نزدیک میسر (جوا) ہے (1) (ابن ابی حاتم فی تفسیر، جلد 2، صفحہ 390) اس کا بیان کچھ اضافے کے ساتھ سورة یونس میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ المیسر یسر سے ماخوذ ہے اس کا معنی ہے : کسی شے کا اپنے صاحب (جوا کھیلنے والے) کے لئے واجب اور لازم ہوجانا کہا جاتا ہے : یسرلی کذا جب کوئی شے کسی کے لئے واجب اور ثابت ہوجائے تب وہ یہ کہہ سکتا ہے ” یسرلی کذا (میرے لئے اتنی شے ثابت ہوگئی) اس کا باب اس طرح چلتا ہے یسر یسر یسرا ومیسر۔ اور یاسر سے مراد تیروں کے ساتھ کھیلنے والا ہے۔ شاعر نے کہا ہے : فاعنھم وایسر بما یسروا بہ واذا ھم نزکوا بضئک فانزل اور ازہری نے کہا ہے کہ المیسر سے مراد وہ اونٹ ہیں جن پر وہ جوا میں شرط لگاتے تھے۔ ان کا نام میسر اس لئے رکھا گیا کیونکہ انہیں اجزاء کے اعتبار سے تقسیم کردیا جاتا ہے، گویا کہ یہ محل تقسیم ہے اور ہر وہ شے جسے تو تقسیم کر دے (اس کے لئے تو کہہ سکتا ہے) یسرتہ۔ اور الیاسر کے معنی میں اصل یہی ہے۔ پھر تیروں کے ساتھ کھیلنے والوں اور اونٹوں پر شرط لگا کر جوا کھیلنے والوں کو یاسرون کہا جاتا ہے کیونکہ وہی تقسیم کرنے والے ہیں جبکہ وہ اس تقسیم کا سبب ہیں اور الصحاح میں ہے : یسرالقوم الجزور۔ یعنی قوم نے اونٹوں کو ذبح کیا اور ان کے اعضاء کو تقسیم کیا سحیم بن وثیل یربوعی نے کہا ہے : اقول لھم بالشعب اذ یسروننی الم تیاسوا ان ابن سفارس زھدم میں نے انہیں گھاٹی میں جا کر کہا جبکہ وہ مجھے قیدی بنا کرلے جا رہے تھے کیا تم جانتے نہیں میں زھدم گھوڑے کے شہسوار کا بیٹا ہوں۔ اسے قیدی بنایا گیا تھا اور اسے تیر مارے گئے تھے اور جب کوئی قوم باہم شرط اور بازی لگانے لگ جائے تو کہا جاتا ہے یسر القوم اور رجل یسر ویاسرہ دونوں کا ایک ہی معنی ہے (یعنی شرط اور بازی لگانے والا آدمی جوا باز) اور اس کی جمع ایسار ہے جیسا کہ نابغہ نے کہا ہے : انی اتمم ایساری وامنحھم مثنی الایادی واکسو الجفنۃ الادما۔ اور طرفہ نے کہا ہے : و ہم ایسار لقمان اذا اغلت الشتوہ ابداء الجرز جو اونٹوں کے ذبح کرنے کو مباح قرار دیتا وہ ان کے نزدیک قابل تعریف ہوتا تھا، شاعر نے کہا ہے : ناجیۃ نحرت لقوم صدق وما نادیت ایسار الجزور۔ مسئلہ نمبر : (5) امام مالک (رح) نے مؤطا میں داؤد بن حصین سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اہل جاہلیت کا جوا یہ تھا کہ وہ گوشت کی بیع ایک یا دو بکریوں کے عوض کرتے تھے، امام مالک (رح) اور آپ کے جمہور اصحاب کے نزدیک اس کا اطلاق جنس واحد میں ہوتا ہے، (یعنی) ایک حیوان کی اس کے گوشت کے عوض بیع ہو اور یہ ان کے نزدیک بیع مزابنہ (1) (المزابنہ : بیع مزابنہ سے مراد درخت پر لگی ہوئی کچھی کھجوروں کی پکی کھجوروں کے عوض اندازے سے بیع کرنا ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک ہر وہ اندازہ جس کا کیل، عدد اور وزن معلوم نہ ہو اس کی بیع کی جائے کسی معینہ کیلی، وزنی اور عددی شے کے ساتھ یا ایک ہی جنس میں سے معلوم شے کی مجہول کے ساتھ بیع کرنا یا مجہول کے عوض کرنا جبکہ جنس ایک ہو) غرر (2) الغرر : مچھلی ابھی پانی میں ہو اور پرندہ ابھی ہوا میں ہوا اسکی بیع کنر بیع الغرر ہے۔ المختصر ہر وہ بیع جس میں مشتری کے لئے دھوکے کا احتمال ہو وہ اسی زمرہ میں داخل ہوگی) اور قمار کے باب سے ہے، کیونکہ یہ معلوم نہیں ہوتا کیا حیوان میں اس گوشت کے برابر گوشت ہے جو اس نے بدلے میں دیا ہے یا اس سے کم ہے یا اس سے زیادہ ہے اور گوشت کی بیع گوشت کے عوض متفاصلا جائز نہیں ہوتی (یعنی جب مقدار برابر نہ ہو تو بیع جائز نہیں ہوتی۔ ) پس حیوان کی بیع گوشت کے عوض کرنا اس گوشت کی بیع کی طرح ہے جو اس کی جلد میں چھپا ہوا ہے۔ بشرطیکہ یہ دونوں ایک جنس سے ہوں اور آپ کے نزدیک جنس واحد اونٹ، گائیں، ریوڑ (بھیڑ بکریاں) ہرن، پہاڑی بکرے اور تمام وحشی جانور اور وہ تمام چار ٹانگوں والے جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے وہ آپ کے نزدیک ایک جنس ہیں۔ لہذا ان تمام اصناف واجناس میں سے کسی حیوان کی بیع اس کے گوشت میں سے کسی شے کے ساتھ کسی بھی وجہ سے جائز نہ ہوگی۔ کیونکہ یہ آپ کے نزدیک بیع مزابنہ کے باب سے ہے، جیسا کہ کشمش کی بیع کرنا انگور کے ساتھ، زیتون کی بیع کرنا اس کے تیل کے ساتھ اور تلوں کے تیل کی بیع کرنا تلوں کے ساتھ اور اسی طرح کی دیگر مثالیں۔ اور آپ کے نزدیک تمام پرندے ایک جنس ہیں اور اسی طرح تمام مچھلیاں ایک ہی جنس سے ہیں اور آپ سے یہ مروی ہے کہ اکیلے مکڑی ایک صنف (قسم) ہے۔ امام شافعی (رح) اور آپ کے اصحاب، حضرت لیث اور ابن سعد نے کہا ہے : گوشت کی بیع کرنا حیوان کے عوض کسی حال میں جائز نہیں ہے، چاہے وہ ایک جنس سے ہوں یا دو مختلف جنسوں سے۔ کیونکہ حدیث طیبہ عام ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں اونٹ ذبح کیے گئے اور انہوں دس اجزاء میں تقسیم کردیا گیا تو ایک آدمی نے کہا : تم ان میں سے ایک جز ایک بکری کے عوض مجھے دے دو تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : یہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا (یعنی یہ درست نہیں ہے) امام شافعی نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس مسئلہ میں صحابہ کرام کی رائے کے خلاف عمل کیا ہو۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے گوشت کے عوض بکری کی بیع کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ روایت قوی نہیں ہے۔ عبدالرزاق نے ثوری عن یحییٰ بن سعید کی سند سے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ اسے مروہ سمجھتے تھے کہ کسی زندہ کی بیع مردہ کے عوض کی جائے، یعنی ذبح کی ہوئی بکری کی بیع زندہ کھڑی بکری کے عوض کی جائے۔ ؁ حضرت سفیان نے کہا ہے : ہم اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔ مزنی نے کہا ہے : اگر گوشت کے عوض حیوان کی بیع کے بارے میں حدیث طیبہ صحیح نہیں ہے تو پھر قیاس یہ ہے کہ وہ جائز ہے اور اگر حدیث صحیح ہے تو پھر قیاس باطل ہے اور حدیث کی اتباع کی جائے گی۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ کو فیوں کے پاس اس بارے میں قیاس اور اعتبار کی جہت سے کثیر دلائل موجود ہیں کہ حیوان کے عوض گوشت کی بیع کرنا جائز ہے، مگر یہ کہ جب حدیث صحیح ہوگی تو قیاس ونظر باطل ہوگا۔ اور مالک نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گوشت کے عوض حیوان کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس حدیث کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ اس کا تصال حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو اور اس کی اسانید میں سے احسن حضرت سعید بن مسیب ؓ کی مرسل ہے جسے امام مالک (رح) نے اپنی مؤطا میں ذکر کیا ہے اور یہی موقف حضرت امام شافعی (رح) کا ہے اور اصل یہ ہے کہ آپ مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے، مگر گمان یہ ہے کہ آپ نے حضرت سعید ؓ کی مراسیل کو تلاش کیا اور انہیں پالیا یا ان میں سے اکثر کو صحیح قرار دیا۔ پس ظاہر حدیث اور عموم حدیث کی بنا پر انواع حیوان کی گوشت کی انواع کے ساتھ بیع کرنا مکروہ ہے کیونکہ کوئی ایسی حدیث نہیں جو اسے خاص کر رہی ہو اور نہ ہی اجماع ہے۔ اور آپ کے نزدیک نص کی تخصیص قیاس کے ساتھ کرنا جائز نہیں۔ اور انکے نزدیک حیوان ہر اس جانور کا نام ہے جو خشکی یا پانی میں زندگی گزار رہا ہو اگرچہ اس کی اجناس مختلف ہیں، جیسا کہ طعام ہر اس شے کا نام ہے جو کھائی جاتی ہو یا پی جاتی ہو۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل فیھما “۔ یعنی خمر اور جوئے میں ” اثم کبیر “ بہت بڑا گناہ ہے۔ شراب کا گناہ وہ ہے جو پینے والے سے صادر ہوتا ہے مثلا باہم ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا، گالی گلوچ دینا، فحش گوئی اور جھوٹا قول اور اس کی عقل کا زائل ہوجانا جس کے ساتھ وہ ان امور کو پہچانتا ہے جن کی ادائیگی اپنے خالق کے لئے واجب ہوتی ہے، نمازوں کو چھوڑ دینا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے رک جانا وغیرہ۔ امام نسائی (رح) نے حضرت عثمان ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : شراب سے اجتناب کرو کیونکہ یہ ام الخبائث ہے، تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی تھا جو بڑا عبادت گزار تھا، پس ایک گمراہ عورت اس سے حاملہ ہوگئی اس نے آدمی کی طرف اپنی لونڈی کو بھیجا اور اس نے اسے کہا : بیشک ہم تجھے شہادت کے لئے بلا رہے ہیں تو وہ اس لونڈی کے ساتھ چل پڑا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی، جونہی وہ دروازے کے اندر داخل ہوا، تو اس نے دروازہ بند کرلیا، یہاں تک کہ وہ ایک خوبرو عورت کے پاس پہنچ گیا۔ اس کے پاس ایک بچہ تھا اور ساتھ ہی شیشہ کے برتن میں شراب پڑی تھی۔ تو اس عورت نے کہا : قسم بخدا ! میں نے تجھے شہادت کے لئے نہیں بلایا، بلکہ میں نے تجھے اس لئے دعوت دی ہے تاکہ تو میرے ساتھ بدکاری کرے، یا شراب کا یہ جام پیے یا پھر اس بچے کو قتل کر دے، اس آدمی نے کہا : تو مجھے شراب کا یہ جام پلا دے۔ چناچہ اس نے وہ جام اسے پلا دیا، اس نے کہا : مجھے اور پلاؤ۔ پس وہ پیتا رہا یہاں تک کہ اس نے اس کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب بھی کرلیا اور اس بچے کو بھی قتل کردیا۔ پس تم شراب سے بچو۔ کیونکہ قسم بخدا ایمان اور شراب پر دوام یہ دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے، بلکہ قریب ہی ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دیتا ہے، ابو عمر نے اسے الاستیعاب میں ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ اعشی جس اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ طیبہ کی طرف جانے لگا تو کچھ مشرک لوگ اسے راستے میں ملے، انہوں نے اسے کہا : تو کہاں جا رہا ہے ؟ تو اس نے انہیں بتایا کہ وہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، تو انہوں نے کہا تو ان سے نہ مل، کیونکہ وہ تجھے نماز کے بارے حکم ارشاد فرمائیں گے۔ اس نے جواب دیا : بلاشبہ رب تعالیٰ کی عبادت کرنا واجب ہے۔ پھر اسے کہا گیا : بیشک وہ تو زنا سے منع کرتے ہیں۔ تو اس نے کہا یہ عمل عقلا انتہائی فحش اور قبیح ہے اور میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں، پھر اسے کہا گیا : بیشک وہ تو شراب پینے سے منع کرتے ہیں، تب اس نے کہا : کیا ایسا بھی ہے ؟ میں تو اس پر صبر نہیں کرسکتا، پس وہ واپس لوٹ گیا اور کہا : میں ایک سال تک شراب پیئوں گا پھر آپ کی طرف لوٹ جاؤں گا، لیکن وہ اپنے گھر تک نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ وہ اونٹ سے گرا اس کی گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا (1) (تفسیر ابی لیث، جلد 1، صفحہ 203) قیس بن عاصم منقرمی دور جاہلیت میں بہت زیادہ شراب پیتا تھا پھر اس نے اپنے اوپر اسے حرام کردیا اور اس کا سبب یہ بنا کہ اس نے نشے کی حالت میں اپنی بیٹی کے پیٹ کی سلوٹوں کو ٹٹولا اور اپنے والدین کو گالیاں دیں، اس نے چاند کو دیکھا تو اس کے بارے میں بھی کچھ (نازیبا) کلمات کہے اور شراب بنانے والے کو اپنا بہت سا مال دے دیا، جب اس کا نشہ اترا اور اسے اس کے بارے خبر ہوئی تو اس نے اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دیا اور اس کے بارے وہ کہتا ہے : رایت الخمر صالحۃ وفیھا خصال تفسد الرجل الحلیما : میں نے شراب کو اچھا دیکھا تھا حالانکہ اس میں ایسی خصال بھی ہیں جو حلیم آدمی کو خراب کردیتی ہیں۔ فلا واللہ اشربھا صحیحا ولا اشفی بھا ابدا سقیما : قسم بخدا ! میں اسے حالت صحت میں نہیں پیوں گا اور نہی ہی کبھی بیماری کی حالت میں اس سے علاج کروں گا۔ ولا اعطی بھا ثمنا حیاتی ولا ادعولھا ابدا ندیما : میں اس کے عوض اپنی حیات بطور ثمن ادا نہیں کروں گا اور نہ میں اس کے لئے کبھی شراب پینے والے ساتھی کو بلاؤں گا۔ فان الخمر تفضح شاربیھا وتجنیھم بھا الامر العظیما : کیونکہ شراب اپنے پینے والے کو ذلیل ورسوا کردیتی ہے اور انہیں بہت بڑے گناہ میں مبتلا کردیتی ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : اور ابن عرابی نے المفضل الضبی سے روایت کیا ہے کہ یہ اشعار ابو محجن ثقفی کے ہیں اس نے شراب چھوڑنے کے وقت یہ کہے تھے اور آپ ؓ یہ کہہ رہے ہیں : اذا مت فادفنی الی جنب کرمۃ تروی عظامی بعد موتی عروقھا : جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے انگور کی بیل کے پہلو میں دفن کرنا اس کی جڑیں میری ہڈیوں کو تراوت دیں گی۔ ولا تدبالفلاۃ فاننی اخاف اذا ما مت ان لا اذوقھا : اور تم مجھے صحرا میں دفن نہ کرنا کیونکہ مجھے یہ خوف ہے کہ جب میں مر جاؤں تو اسے نہ چکھ سکوں گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے انہیں کئی بار حد شراب کے کوڑے لگائے اور انہیں سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف جلا وطن کردیا، پس وہ حضرت سعد ؓ کے ساتھ جا ملے تو حضرت عمر ؓ نے ان کی طرف انہیں قید کرنے کا حکم نامہ لکھا۔ چناچہ حضرت سعد ؓ نے انہیں قید کرلیا اور یہ انتہائی بہادر شہسواروں میں سے ایک تھے، جب یہ جنگ قادسیہ میں آپ کے حکم سے شریک ہوئے تو معروف یہی ہے آپ نے ان کی بیڑیاں کھول دیں اور فرمایا : ہم کبھی بھی تمہیں شراب پینے پر کوڑے نہیں لگائیں گے۔ تو ابو محجن نے کہا : قسم بخدا ! میں کبھی بھی شراب نہیں پیوں گا، پھر اس کے بعد کبھی بھی شراب نہیں پی۔ اور ایک روایت میں ہے : میں شراب پیتا تھا جب مجھ پر حد قائم کی جاتی تو میں اس سے پاک ہوجاتا تھا اور جب تم نے مجھ سے حد ساقط کر کے مجھے بدر چھوڑ دیا ہے تو قسم بخدا ! میں کبھی شراب نہیں پیوں گا۔ ہیثم بن عدی نے بیان کیا ہے کہ اسے اس نے خبر دی ہے جس نے آذر بیجان میں ابو محجن کی قبر دیکھی ہے یا کہا : جرجان کے نواح میں اس حال میں کہ اس پر بیل کی تین جڑیں اگی ہوئیں ہیں۔ وہ خوب بڑھی ہوئی ہیں اور وہ پھل بھی دیتی ہیں اور وہ ان کی قبر پر بچھی ہوئی ہیں اور انکی قبر پر یہ لکھا ہوا ہے ” ھذا قبر ابی محجن “۔ (یہ ابو محجن کی قبر ہے) اس نے کہا کہ میں نے اس پر خوب تعجب کیا اور مجھے ان کا یہ قول یاد آگیا ” اذا مت فادفنی الی جنب کرمۃ۔ بلاشبہ شراب پینے والا اہل عقل کے لئے تمسخر بن جاتا ہے اور وہ اپنے پیشاب اور نجاست کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنے چہرے پر ملنے لگتا ہے حتی کہ بعض کو اس حالت میں دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے چہرے کو پیشاب سے دھو رہا ہوتا ہے اور یہ کہہ رہا ہوتا ہے : اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین “ اور بعض کو اس حال میں دیکھا گیا ہے کہ کتا اس کے چہرے کو چاٹ رہا ہوتا ہے اور وہ اسے کہہ رہا ہوتا ہے۔ : اکرمک اللہ۔ اور رہا جوا ! تو یہ تو عداوت اور بغض کا وارث بناتا ہے کیونکہ یہ کسی غیر کا مال باطل طریقے سے کھانے کا نام ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومنافع للناس “۔ شراب میں تاجروں کے لئے نفع ہے کیونکہ وہ اسے شام سے سستے داموں خرید کر لاتے تھے اور حجاز میں منافع کے ساتھ اسے فروخت کرتے تھے اور وہ اس میں کوئی تنگی نہیں دیکھتے تھے کیونکہ شراب کا طالب اسے مہنگے داموں خرید لیتا ہے۔ شراب کے منافع کے بارے جو کچھ کہا گیا ہے یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ اور اس کے منافع کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شراب کھانے کو ہضم کرنے میں معاون ہوتی ہے، ضعف اور کمزوری کو قوت دیتی ہے، قوت مردانگی میں معاون ہوتی ہے، بخیل کو سخی بناتی ہے، بزدل کو بہادر اور دلیر بناتی ہے اور رنگ کو صاف کرتی ہے، علاوہ ازیں لذت کا کام بھی دیتی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے کہا ہے : ونشربھا فتترکنا ملوکا واسدا ماینھنھنا اللقائ : اور ہم اسے پیتے ہیں اور یہ ہمیں ایسا بادشاہ اور شیر بنا کر چھوڑتی ہے کہ حملہ آور لشکریوں کو ہم سے روک دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی کئی راحتیں اور خوشیاں ہیں۔ ایک دوسرا شاعر کہتا ہے : فاذا شربت فاننی رب الخورنق والسدیر : جب میں شراب پیتا ہوں تو میں خورنق اور سدیر (نعمان اکبر بن امروالقیس کا محل جو عراق میں تھا) کا مالک ہوتا ہوں۔ واذا مسحوت فاننی رب الشویھۃ البعیر : اور جب میں نشے میں افاقہ پالیتا ہوں تو میں بکریوں اور اونٹوں کا مالک ہوتا ہوں۔ اور جوئے کے منافع میں سے یہ ہے کہ اس میں بغیر کسی کدو کاوش اور محنت کے ایک چیز انسان کی طرف لوٹ آتی ہے، پس وہ اونٹ خریدتے ہیں اور اپنے تیر ڈالتے ہیں، جس کا تیر نکل آئے گوشت سے اس کا حصہ لے لیا جاتا ہے اور اس پر کوئی ثمن وغیرہ نہیں ہوتے اور جس کا تیر آخر میں باقی رہ جائے اس پر تمام اونٹوں کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے اور اس کے لئے گوشت میں سے کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جوئے کی منفعت محتاج لوگوں پر وسعت و خوشحالی کا آنا ہے کیونکہ لوگوں میں سے جو جوا کھیلتا تھا وہ اونٹوں کا گوشت نہیں کھاتا تھا بلکہ اسے محتاجوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ جوئے کے تیر گیارہ تیر ہوتے، ان میں سے ساتھ سات کے لئے حصص ہوتے اور ان میں حصوں کی تعداد کے مطابق مقررہ چیز لازم ہوتی اور وہ یہ ہیں : الفذ “ اس میں ایک علامت ہوتی اور اسکے لئے ایک حصہ ہوتا اور ناکامی کی صورت میں اس پر ایک حصہ لازم ہوتا۔ دوسرا التوام ہے۔ اس میں دو علامتیں ہوتی اور اس کے لئے دو حصے ہوتے ہیں اور اس پر دو حصے لازم ہوتے، تیسرا ” الرقیب “ ہے۔ اس میں تین علامات ہوتیں اسی ترتیب پر جو ہم نے پہلے بیان کردی ہیں۔ چوتھا الحلس ہے۔ اس کے لئے چار علامات ہوتیں۔ پانچواں النافز ہے۔ اس کا نام النافس بھی ہے۔ اس کے لئے پانچ علامات ہوتیں۔ چھٹا السبل ہے۔ اس کے لئے چھ علامات ہوتیں اور ساتواں المعلی ہے اس کے لئے سات علامات ہوتیں۔ اس طرح یہ اٹھائیس حصص ہوتے اور اصمعی کے قول کے مطابق اونٹوں کے حصص بھی اسی طرح ہوتے اور تیروں میں سے ابھی چار باقی ہیں۔ ان پر کوئی علامت نہ ہوتی اور نہ ہی فروض اور انصباء میں سے کوئی ان کے لئے ہوتا اور وہ یہ ہیں : المصدر، المضعف، امنیح اور السفیح۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : باقی تین تیر بغیر علامت کے ہیں وہ یہ ہیں السفیح، المنیح اور الوغد۔ اس پر تیروں کی کثرت کی وجہ سے ان تینوں کا اضافہ کیا جاتا جو انہیں حرکت دیتا اور کسی کی طرف میلان کا وہ کوئی راستہ نہ پاتا۔ اور تیروں کو حرکت دینے والے کو المفیض الضارب اور الضریب کا نام دیا جاتا۔ اور جمع الضرباء آتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرکت دینے والے کے پیچھے ایک تاکنے والا بھی رکھا جاتا تاکہ وہ کسی کی طرفداری نہ کرے، پھر ضریب اپنے گھنٹوں کے بل بیٹھ جاتا اور کپڑے کے ساتھ مکمل طور پر لپٹ جاتا اور اپنا سر باہر نکالتا اور اپناہاتھ ربابہ (ترکش کی مانند تیر جمع کرنے کا برتن) میں داخل کرتا اور تیر نکالتا۔ اور عربوں کی عادت تھی کہ وہ موسم سرما میں وقت کے تنگ ہونے اور فقراء پر سردی اور حالات کے سخت ہونے کی حالت میں انہیں تیروں کے ساتھ اونٹوں کی تقسیم کرتے تھے۔ اونٹ خریدے جاتے تھے اور خوشحال اور امیر لوگ ان کی قیمت کے ضامن ہوتے تھے اور ان کا مالک اپنے حق سے دستبردار ہوجاتا اور وہ اس کے ساتھ فخر کرتے تھے اور جو ان میں سے اس طرح نہ کرتا وہ اس کی مذمت کرتے تھے اور وہ اسے البرم کا نام دیتے تھے۔ متمم بن نویرہ نے کہا ہے : ولا برما تھدی النساء لعرسہ اذا القشع من برد الشتاء تقعقعا : پھر اونٹ ذبح کیے جاتے اور انہیں دس اقسام پر تقسیم کردیا جاتا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اونٹوں کی تقسیم میں اصمعی نے خطا کی ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ تیروں کے حصص کی مقدار کے مطابق ان کے بھی اٹھائیس حصے کیے جاتے، حالانکہ بات اس طرح نہیں ہے۔ پھر وہ دس پر تقسیم کرتا۔ پس جو کوئی ربابہ سے پہلے اپنا تیر نکالنے میں کامیاب ہوجاتا تو وہ اپنے حصص لے لیتا اور فقراء کو عطا کردیتا۔ اور ربابہ سے مراد ترکش کے مشابہ (برتن) ہے جس میں جوئے کے تیر جمع کیے جاتے ہیں۔ اور بسا اوقات انہوں نے تمام تیروں کو ربابہ کا نام دیا ہے۔ ابو ذؤیب نے گدھے اور گدھیوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : وکانھن ربابۃ وکانہ یسر یفیض علی القداح ویصدع : اور ربابہ کا معنی عہد اور میثاق بھی ہے۔ شاعر نے کہا ہے : وکنت امرا افضت الیک ربابتی وقبلک ربتنی فضعت ربوب : اور بعض قبائل میں وہ بسا اوقات اپنی ذاتوں کے لئے جوا کھیلتے پھر ثمن کی چٹی اسی پر ہوتی جو اپنے تیر میں کامیاب نہ ہوتا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور اسی طریقے پر قبیلے کے فقراء زندگی گزارتے تھے۔ اسی کے مطابق اعشی کا قول ہے : المصعمو الضیف اذا ماشتوا والجاعلوا القوت علی الیاسر : اور ایک دوسرے کا قول ہے : بایدیھم مقرومۃ ومغائق یعود بارزاق العفاۃ منیحھا : اس شعر میں المنیح سے مراد المستمنح (عطیہ) ہے کیونکہ وہ لوگ وہ تیر عاریۃ لے لیتے تھے جو باعث نجات ہوتا اور اس کی کامیابی وافر ہوتی۔ اس لئے یہ قابل تعریف اور پسندیدہ منیح ہے۔ اور رہا وہ منیح جو بےعلامت تیروں میں سے ایک ہے تو۔۔۔۔۔ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ اور اخطل نے اپنے اس شعر میں اسی کا ارادہ کیا ہے : ولقد عطفن علی فزارۃ عطفۃ کر المنیح وجلن ثم مجالا : اور الصحاح میں ہے : المنیح جوئے کے ان تیروں میں سے ہے جس کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کے مالک کو کوئی شے عطا کردی جائے۔ اور جوئے سے متعلق لبید کا قول ہے : اذا یسروا لم یورث الیسر بینھم فواحش ینعی ذکرھا بالمصایف : یہ سب کا سب جوئے کا نفع ہے مگر یہ کہ یہ باطل طریقے سے مال کھانے ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ (آیت) ” واثمھما اکبر من نفعھما “۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا گناہ نفع سے کہیں زیادہ اور بڑا ہے اور آخرت میں ضرر اور نقصان کی طرف زیادہ لوٹانے والے ہیں۔ پس گناہ کبیر ان کی تحریم کے بعد ہے اور منافع تحریم سے پہلے کے ہیں۔ حمزہ اور کسائی نے کثیرثاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ان کی دلیل یہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے شراب پر لعنت کی ہے اور اس کے ساتھ مزید دس پر لعنت کی ہے : اسے فروخت کرنے والے پر، اسے خریدنے والے پر اور اس پر جس کے لئے خریدی جائے اور اس جس نے اسے کشید کیا اور اس پر جس کے لئے کشید کیا گیا، اسے پلانے والے پر، اسے پینے والے پر، اسے اٹھانے والے پر، اس پر جس کے لئے شراب اٹھائی جائے اور اس کے ثمن کھانے والے پر (1) (ابن ماجہ، باب لعنت الخمر علی عشرۃ اوجہ، حدیث نمبر : 3370 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (ایضا ابو داؤد باب العنب یعصر للخمر، حدیث نمبر : 3189، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہ منافع کو جمع ذکر کرنے کے ساتھ جمع الآثام ہی زیادہ حسین اور مناسب ہے اور لفظ کثیر یہ معنی ادا کرسکتا ہے۔ باقی قراء اور لوگوں میں سے جمہور نے ” کبیر “ پڑھا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جوئے اور شراب پینے میں جو گناہ ہے وہ کبائر میں سے ہے اور اسے کبیر کے ساتھ ہی بیان کرنا زیادہ مناسب ہے۔ اور یہ بھی کہ ان کا اکبر پر اتفاق کرنا کبیر کے لئے دلیل اور حجت ہے۔ اور لفظ اکثر کے چھوڑنے پر تمام نے اجماع کیا ہے سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مصحف کے، کیونکہ اس میں ہے : (آیت) ” قل فیھما اثم کثیر، اثمھما اکثر “ دونوں مقامات پر با کی جگہ ثا ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) اہل نظر میں سے ایک جماعت نے کہا ہے : شراب اس آیت کے ساتھ حرام کی گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن والاثم “۔ (الاعراف : 33) ترجمہ : آپ فرمائیے : بیشک حرام کردیا ہے میرے رب نے سب بےحیائیوں کو جو ظاہر ہیں ان سے اور جو پوشیدہ ہیں اور (حرام کردیا) گناہ کو۔ ) اور اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ اس میں گناہ ہے اور وہ حرام ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ نظر وفکر عمدہ نہیں ہے کیونکہ اس میں جو گناہ ہے وہ حرام ہے نہ کہ بعینھا حرام ہے۔ یہ نظر وفکر اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور بعض نے کہا ہے : اس آیت میں شراب کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اثم کا نام دیا ہے اور اثم کو ایک دوسری آیت میں حرام قرار دیا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن والاثم “۔ اور بعض نے کہا ہے : اثم سے مراد خمر (شراب) ہی ہے۔ اس پر دلیل شاعر کا یہ قول ہے : شربت الاثم حتی ضل عقلی کذاک الاثم یذھب بالعقول : میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل گمراہ ہوگئی جس طرح کہ گناہ عقلوں کو ضائع کردیتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ قول بھی عمدہ اور جید نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خمر کو اثم کا نام نہیں دیا ہے بلاشبہ اس نے کہا ہے : (آیت) قل فیھما اثم کبیر “۔ (یعنی آپ فرمائیے : ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے) یہ نہیں فرمایا ” قل ھما اثم کبیر “ (کہ یہ دونوں بہت بڑا گناہ ہیں) اور رہی سورة الاعراف کی آیت اور شعر تو ان دونوں کے بارے تفصیلی گفتگو بعد میں ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : بلاشبہ اس آیت میں شراب کی مذمت ہے اور رہی اس کی تحریم تو وہ دوسری آیت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ سورة المائدہ کی آیت ہے۔ اکثر مفسرین نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” ویسئلونک ماذا ینفقون، قل العفو ‘ کذلک یبین اللہ لکم الایت لعلکم تتفکرون (219) فی الدنیا والاخرۃ “ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل العفو “۔ جمہور کی قراءت نصب کے ساتھ ہے اور صرف ابو عمرو نے اسے رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابن کثیر کی جانب سے اس میں اختلاف کیا گیا ہے اور حسن، قتادہ اور ابن ابی اسحاق کی قرات رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابن کثیر کی جانب سے اس میں اختلاف کیا گیا ہے اور حسن، قتادہ اور ابن ابی اسحاق کی قرات رفع کے ساتھ ہے۔ نحاس وغیرہ نے کہا ہے : اگر ذابمعنی الذی بنایا جائے تو پھر پسندیدہ رفع ہے، اس معنی کی بنا پر کہ جو وہ خرچ کرتے ہیں وہ عفو ہے اور غصب بھی جائز ہے اور اگر ما اور ذا کو ایک ہی شے قرار دیا جائے تو پھر پسندیدہ نصب ہے، اس معنی کی بنا پر کہ آپ فرما دیجئے : وہ عفو خرچ کریں۔ اور رفع بھی جائز ہے۔ اور علماء نحو نے بیان کیا ہے : ما ذا تعلمت : انحوا ام شعرا یعنی نصب اور رفع دونوں کے ساتھ۔ اس بنا پر کہ اس میں دونوں اعراب جید اور حسن ہیں، مگر آیت میں تفسیر نصب کی بناء پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) علماء نے کہا ہے : جب سابقہ آیت ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” ویسئلونک ماذا ینفقون “ میں سوال نفقہ کے بارے ہے کہ وہ کس پر خرچ کیا جائے ؟ جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے اور جواب بھی اس پر دال ہے اور جواب بھی سوال کے موافق ہی ظاہر ہوا ہے۔ اس آیت میں دوسرا سوال خرچ کرنے کی مقدار کے بارے میں ہے اور یہ حضرت عمرو بن جموع ؓ کی شان میں ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ کیونکہ جب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” قل ما انفقتم من خیرفللوالدین “۔ (البقرہ : 215) انہوں نے کہا : میں کتنا خرچ کروں ؟ تب یہ حکم نازل ہوا۔ (آیت) ” قل العفو “ اور عفو کا معنی یہ ہے : ما سھل وتیسر وفضل ولم یشق علی القلب اخراجہ، یعنی وہ شی جو آسان ہو میسر ہو، اور فالتو ہو اور اس کا نکالنا دل پر شاق نہ ہو۔ اسی معنی میں شاعر کا قول بھی ہے : خذی العفو منی تستدی مودتی ولا تنطقی فی سورتی حین اغضب “۔ تو عفو لے لے میری محبت کو ہمیشہ برقرار رکھ اور جب میں غصے میں ہوں تو میرے غصے کی حالت میں تو بات نہ کر۔ پس معنی یہ ہے کہ تم اپنی حاجات سے فالتو مال خرچ کر دو اور تم اس میں اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا نہ کرو کہ تم محتاج اور فقیر ہوجاؤ۔ آیت کی تاویل میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں یہی معنی زیادہ مناسب اور اولی ہے۔ اور حضرات حسن، قتادہ، عطاء سدی، محمد بن کعب قرظی اور ابن ابی لیلی وغیرھم کے قول کا بھی یہی معنی ہے۔ انہوں نے کہا ہے : ” العفو مافضل من العیال “ کہ عفو سے مراد وہ مال ہے جو اہل و عیال سے فالتو ہو۔ اور اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے۔ اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : صدقہ وہ ہے جو اس مال سے ہو جس کی حاجت نہ ہو۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو تو نے ضرورت سے زائد مال سے خرچ کیا اور دوسری حدیث میں ہے : ’ بہترین صدقہ اس مال کا ہے جو ضرورت سے زائد ہو۔ “ (1) (بخاری شریف : باب : لا صدقۃ الاعن ظھر غنی الخ، حدیث نمبر : 1337، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (ایضا بخاری شریف : باب : لا صدقہ الاعن ظہر غنی الخ حدیث نمبر : 1338 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قیس بن سعد نے کہا ہے (2) (تفسیر طبری، جلد 3، صفحہ 694) اس سے مراد فرض زکوۃ ہے اور جمہور علماء نے کہا ہے : نہیں بلکہ یہ نفلی صدقات ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کسی آدمی کے پاس سونا، چاندی یا اناج یا دودھ دینے والے جانور وغیرہ ہوتے تو وہ غور وفکر کرتا کہ ان میں سے کتنا مال اس کی اپنی ذات اور اس کے اہل و عیال کے خرچے کے لئے سال بھر کے لئے کافی ہوگا۔ وہ اسے اپنے پاس روک لیتا اور بقیہ تمام ساز و سامان صدقہ کردیتا اور اگر اور اگر وہ ان لوگوں میں سے ہوتا جو اپنے ہاتھ کے ساتھ کام کرتے ہیں تو وہ اپنی اور گھر والوں کی ایک دن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مال اپنے پاس روک لیتا اور باقی ماندہ صدقہ کردیتا حتی کہ پھر آیت زکوۃ نازل ہوئی اور یہ آیت منسوخ ہوگئی اور ہر وہ صدقہ منسوخ ہوگیا جس کے بارے انہیں حکم دیا گیا تھا۔ ایک قوم نے کہا ہے : یہ آیت محکم ہے اور مال میں زکوۃ کے سوا بھی حق ہے اور ظاہر حال قول اول پر ہی دلالت کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کذلک یبین اللہ لکم الایت “۔ مفضل بن سلمہ نے کہا ہے : مراد نفقہ کے احکام ہیں (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ نفقہ کے بارے میں اپنے احکام تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے) (آیت) ” لعلکم تتفکرون “۔ تاکہ تم دنیا اور آخرت میں غور وفکر کرو، پس تم اپنے مالوں میں سے اتنے روک لو جو تمہارے لئے دنیوی معاملات میں نفع بخش اور ضروری ہوں اور باقی ماندہ ان امور میں خرچ کر دو جو آخرت میں تمہارے لئے باعث نفع ہوں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام میں تقدیم وتاخیر ہے، یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے دنیا اور آخرت کے امور کے بارے میں اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم دنیا، اس کے زوال اور اس کی فنا کے بارے میں غور و فکر کرو اور تم اس میں زہد اختیار کرو اور آخرت کے آنے اور اس کے باقی رہنے کے بارے میں غور وفکر کرو اور اس میں تم رغبت رکھو۔
Top