Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 41
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً١ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ بِالْحَقِّ : (وعدہ) حق کے مطابق فَجَعَلْنٰهُمْ : سو ہم نے انہیں کردیا غُثَآءً : خس و خاشاک فَبُعْدًا : دوری (مار) لِّلْقَوْمِ : قوم کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
تو ان کو ایک سخت ڈانٹ نے شدنی کے ساتھ آدبوچا تو ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا تو خدا کی پھٹکار ہو ایسے بدبختوں پر
صیعۃ کا مفہوم صیعۃ کے معنی ڈانٹ کے ہیں اور قرآن میں یہ عذاب الٰہی کی تعبیر کے لئے جگہ جگہ استعمال ہوا ہے، خواہ وہ عذاب کسی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اس کو سخت آواز کے عذاب کے ساتھ مخصوص کردینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ حق کا مفہوم حق سے مراد یہاں وہ وعدہ حق ہے جو تکذیب کی صورت میں بشکل عذاب لازماً ظاہر ہونے والا تھا اور جس کی پیغمبر نے ان کو خبر دے دی تھی۔ غث کا مفہوم لفظ غشآء قرآن مجید اور کلام عرب دونوں میں دو مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ انشاء اللہ سورة اعلیٰ کی تفسیر میں ہم اس پر مفصل بحث کریں گے۔ یہاں یہ پامال شدہ خس و خاشاک کے مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی اس دعا کے بعد ان پر خدا کا عذاب اس امر واقعی کے ساتھ آدھمکا جس کو لوگ محض خالی خولی دھمکی سمجھ رہے تھے اور ہم نے ان کو بالکل خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا۔ فبعداً للقوم الظلمین لعنت اور پھٹکار کا جملہ ہے۔ یعنی ایسے ناہنجاروں پر خدا کی پھٹکار ہو ! یہ اس عذاب کی معنوی تعبیر ہے۔ عذاب الٰہی درحقیقت خدا کی لعنت ہوتا ہے۔
Top