Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 34
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً١ۚ وَ كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ
قَالَتْ : وہ بولی اِنَّ : بیشک الْمُلُوْكَ : بادشاہ (جمع) اِذَا دَخَلُوْا : جب داخل ہوتے ہیں قَرْيَةً : کسی بستی اَفْسَدُوْهَا : اسے تباہ کردیتے ہیں وَجَعَلُوْٓا : اور کردیا کرتے ہیں اَعِزَّةَ : معززین اَهْلِهَآ : وہاں کے اَذِلَّةً : ذلیل وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اس نے کہا، بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں اخل ہوتے ہیں تو اس کو درہم برہم اور اس کے معززین کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں اور یہی یہ لوگ بھی کریں گے
قالت ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا و جعلوآ اعزۃ اھلھا اذلۃ وکذلک یفعلون (34) ملکہ کی رائے ملکہ نے درباریوں کے اس رجحان کی تائید نہیں کی۔ حضرت سلیمان کی قوت وصولت اور ان کی دانش و حکمت سے متعق ان کو بہت سی باتیں پہنچ چکی تھیں۔ اس وجہ سے جنگ کے رجحان کی انہوں نے حوصلہ شکنی کی اور اس کے عواقب سے اپنے درباریوں کو ڈرایا کہ بادشاہ لوگ جب کسی ملک یا شہر کو فتح کرتے ہیں تو اس کو بالکل تلپٹ کر کے رکھ دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ملک کے معززین کو ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ بصورت غلیہ سلیمان اور ان کے فوجی بھی لازماً یہی کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جنگ سے احتراز ہی میں خیر ہے۔
Top