Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 59
حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک اِذَا جَآءُوْ : جب وہ آجائیں گے قَالَ : فرمائے گا اَكَذَّبْتُمْ : کیا تم نے جھٹلایا بِاٰيٰتِيْ : میری آیات کو وَلَمْ تُحِيْطُوْا : حالانکہ احاطہ میں نہیں لائے تھے بِهَا : ان کو عِلْمًا : علم کے اَمَّاذَا : یا۔ کیا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے تھے پس ان کی گروہ بندی کی جائے گی۔ یہاں تک کہ جب وہ اکٹھے ہوجائیں گے تو پوچھے گا کہ کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ تمہارا علم ان کا احاطہ نہ کرسکا تھا یا کیا کرتے رے تھے !
مکذبین سے ایک سوال جب یہ سارے مجرمین اکٹھے ہولیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرمائے گا کہ بتائو کیا تم نے میری آیات کی تکذیب کی درآنحالیکہ تمہارے علم نے ان کا پورا پورا احاطہ نہیں کیا تھا یا تم کیا بناتے رہے تھے ؟ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس روز حشر و نشر اور جزاء و سزا کو اس بنیاد پر جھٹلایا ہوتا کہ تمہارے پاس تمام اسرار کائنات کا علم ہے تب تو تمہارا ایک مئوقف ہوسکتا تھا لیکن اس طرح کا محیط کل علم نہ رکھنے کے باوجود اگر تم نے میری تنبیہات کی تکذیب کی تو اب بتائو تمہارے پاس کیا عذر ہے ؟ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کسی بات کو تسلی کرنے کے لئے یہ چیز کافی ہے کہ اس کے دلائل و آثار عقل و فطرت اور آفاق وانفس میں موجود ہیں۔ محض اس بنیاد پر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے تمام اطراف و جوانب کا ہمارا علم احاطہ نہ کرسکا۔ اگر کوئی شخص اس بنیاد پر اس کی تکذیب کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام اسرار کائنات کے حا اطہ کا مدعی ہے اور یہ چیز نہ کسی کو حاصل ہے اور نہ فاطر کائنات کے سوا کسی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسے شخص کی مثال اس احمق کی ہے جو ہمالہ کا انکار اس بنا پر کر دے کہ اس نے اس کی تمام چوٹیوں اور اس کی تمام وادیوں کا مشاہدہ نہیں کیا۔
Top