Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 84
حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک اِذَا جَآءُوْ : جب وہ آجائیں گے قَالَ : فرمائے گا اَكَذَّبْتُمْ : کیا تم نے جھٹلایا بِاٰيٰتِيْ : میری آیات کو وَلَمْ تُحِيْطُوْا : حالانکہ احاطہ میں نہیں لائے تھے بِهَا : ان کو عِلْمًا : علم کے اَمَّاذَا : یا۔ کیا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
یہاں تک کہ جب وہ آجائیں گے تو فرمائے گا کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا، حالانکہ تم نے ان کا پورا علم حاصل نہ کیا تھا، یا کیا تھا جو تم کیا کرتے تھے ؟
حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْ۔۔ : یعنی ان کے حاضر ہونے پر ان سے عقائد و اعمال دونوں کے متعلق سوال ہوگا اور یہ سوال انھیں شرمندہ اور لاجواب کرنے کے لیے ہوگا کہ کیا دنیا میں تمہارا یہی مشغلہ رہا کہ تم ہماری آیات کو پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بغیر ہی جھٹلاتے رہے۔ تمہارے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ تم نے پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بعد انھیں غلط سمجھ کر جھٹلایا ہو، یا پھر بتاؤ تم کیا کرتے رہے تھے، جیسا کہ سورة ملک میں کفار کا قول نقل کیا ہے، فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ) [ الملک : 10، 11 ] ”اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔“ ہمارے زمانے کے بدعتی، فرقہ پرست، منکرین حدیث اور کفار سے مرعوب جدّت کے دعوے دار لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ جہاں کوئی آیت یا حدیث سمجھ میں نہ آئی اس پر پوری طرح غور کرنے یا کسی سے سمجھنے کے بغیر ہی اسے ردّ کردیا، یا کوئی آیت یا حدیث اپنے فرقے کے مسلک کے خلاف نظر آئی تو اسے ردّ کردیا، یا اس کی ایسی تاویل کی جو ردّ کردینے سے بھی بدتر ہے۔
Top