Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 22
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی الَّذِيْنَ : وہ جو کہ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُھُمْ : ان کے عمل فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کا مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
یہی لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت گئے اور ان کا کوئی مدد کرنے والا نہ بنے گا۔
حبط عمل کی حقیقت : حبط عمل سے مطلب ہے کوششوں اور محنتوں کا اکارت ہوجانا۔ ظاہر ہے کہ وہ ساری دینداریاں جو سیدنا مسیح کے الفاظ میں، مچھر کو چھاننے اور اونٹ کو نگلنے کے مترادف تھیں، ان کے آخرت میں نتیجہ خیز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہیں وہ کوششیں اور تدبیریں جو وہ قرآن و اسلام یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و قسط کی مخالفت میں صرف کر رہے تھے تو اس آیت نے ان کے بھی اکارت ہونے کی پیشین گوئی کردی اس لیے کہ اس آیت میں دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے اعمال کے اکارت ہونے کا ذکر ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اس ذلت و نامرادی سے بچانے میں ان کا کوئی مددگار ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ خواہ یہ مددگار روحانی ہوں یا مادی، تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کی پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اگلی آیات 23 تا 27 کا مضمون : پہلے ان منکرین قرآن کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان سے توقع تو اس بات کی تھی کہ جس کتاب کا ایک حصہ ان کو دیا گیا تھا لیکن اپنی بدبختی سے اس کو انہوں نے ضائع کردیا اس کو از سرِ نو اس کی مکمل صورت میں پاکر اس کی قدر کریں گے اور اس کی روشنی میں اپنے تمام اختلافات رفع کر کے نئے سرے سے عدل و حق کی راہ اختیار کریں گے لیکن انہوں نے حسب عادت اعراض ہی کی روش اختیار کی۔ اس کے بعد ان کے اس اعراض کے ایک نہایت اہم سبب کا سراغ دیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو ایک برگزیدہ امت سمجھنے کی وجہ سے یہ غلط عقیدہ ایجاد کربیٹھے ہیں کہ یہ دوزخ کے عذاب سے بہر شکل محفوظ ہیں، اول تو یہ دوزخ میں ڈالے ہی نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو بس سرسری طور پر کچھ سزا بھگت کر اس سے نجات پا جائیں گے۔ یہ عقیدہ ان کی ایک من گھڑت ایجاد ہے جس کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسی خود فریبی نے ان کو ان کے دین سے بالکل غافل کردیا ہے حالانکہ ایک دن رتی رتی کا حساب ہونا ہے۔ اس دن ان کی آنکھیں کھلیں گی کہ ان کا سارا کیا دھرا ان کے سامنے موجود ہے اور خدا کی میزان نے نہ ان کے ساتھ کوئی رعایت کی ہے اور نہ کوئی کمی۔ اس کے بعد اس امر کا اعلان ہے کہ یہ یہود و نصاری اب منصب امامت سے معزول ہوئے اور شریعتِ الٰہی کی یہ امانت اس امت کے سپرد کی جا رہی ہے جس کو خدا نے اس امانت کا اہل پایا ہے۔ ”مالک الملک خدا ہی ہے، وہ جس سے چاہے چھینے اور جس کو چاہے بخشے، عزت اور ذلت سب اسی کے ہاتھ میں ہے، رات کو دن میں داخل کرنا اور زندہ کو مردہ سے نکالنا اسی کا کام ہے“۔ یہ بات خبر کے بجائے دعا کے اسلوب میں پیغمبر ﷺ اور آپ کے واسطہ سے آپ کے صحابہ کو تلقین کی گئی ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بار گراں اب جن کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے وہ اس کو خدا کی امانت سمجھیں اور اس کے اٹھانے میں اسی کے سہارے کے طالب بنیں۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top