Tadabbur-e-Quran - Faatir : 27
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا١ؕ وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ
اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً ۚ : پانی فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالے بِهٖ : اس سے ثَمَرٰتٍ : پھل (جمع) مُّخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهَا ۭ : ان کے رنگ وَمِنَ الْجِبَالِ : اور پہاڑوں سے۔ میں جُدَدٌۢ بِيْضٌ : قطعات سفید وَّحُمْرٌ : اور سرخ مُّخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهَا : ان کے رنگ وَغَرَابِيْبُ : اور گہرے رنگ سُوْدٌ : سیاہ
تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پس ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھ پیدا کردیے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ مختلف رنگوں کے دھاریاں ہیں اور بھیجنگ کالی بھی۔
آیت 27 وہی حقیقت جو آیات 20۔ 22 میں سجھائی گئی ہے اس کائنات کی دوسری مثالوں کی روشنی میں سمجھائی جا رہی ہے۔ گویا آیت 23۔ 26 بیچ میں بطور التفاف آگئی تھیں۔ ان کے ختم ہونے کے بعد کلام پھر اپنے اصل سلسلہ سے مربوط ہوگیا۔ فرمایا کہ دیکھتے ہی نہیں کہ اللہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے تو اس سے ایک ہی قسم کی چیز نہیں اگتی بلکہ طرح طرح کی مختلف النوع اور مختلف الالوان چیزیں اگ پڑتی ہیں۔ اسی سے خوش نماء خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھلوں والی چیزیں بھی اگتی ہیں اور اسی سے ناقص زمینوں میں جھاڑ جھنکار بھی اگتے ہیں۔ یہی حال اس قرآنی بارش کا بھی ہے۔ اس سے بھی صالح طبیعتوں کی صلاحیتیں بھی ابھریں گی اور جن کے اندر کھوٹ اور فساد ہے وہ بھی ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس لئے کہ شیطان اسکو ٹھندے پیٹوں نہیں برداشت کرے گا بلکہ وہ بھی اپنی ذریات کو اس کے مقابلے کے لئے ابھارے گا۔ لفظ ’ الوان ‘ عربی میں صرف رنگوں ہی کے مفہوم میں نہیں آتا بلکہ انواع و اقسام کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ آگے بھی اسی آیت میں یہ لفظ مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ سورة اعراف میں بارش کے اثرات کے اس پہلو کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلانی ہے۔ والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ وزی خبث لا یخرج الا تکندا۔ (الاعرا : 57) اور جو زمین زرخیز ہوتی ہے تو اس کے رب کے حکم سے اس کی نباتات بھی اچھی اگتی ہیں اور جو ناقص ہوتی ہے تو اس کی نباتات بھی ناقص ہی اگتی ہیں۔ اس آیت کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں، اس مقام کی وضاحت کے لئے ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجئے۔ ’ ومن الجبا جدد بیض وحمر مختلف الوانھا وغرابیب سود۔ ‘۔ جدد ‘ جمع ہے ’ جدۃ ‘ کی۔ یہ لفظ اصلاً تو ہر نوں اور خچروں کی پیٹھوں پر مختلف رنگوں کو جو دھاریاں ہوتی ہیں ان کے لئے آتا ہے لیکن یہاں یہ ان مختلف الالوان سلوں اور چٹانوں کے لئے آیا ہے جن کی دھاریاں یا قطاریں پہاڑوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ’ غرابیت ‘ جمع ہے ’ غربیب ‘ کی۔ اسکے معنی ہیں کالا بھجنگ۔ یہ لفط عام طور پر ’ اسود ‘ کی تاکید کے لئے آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے، اسود غربیب ‘۔ فلاں چیز کالی بھجنگ ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں یہ ’ سود ‘ سے پہلے کیوں آیا، تاکید کا مقدم آنا بلاغت کے خلاف ہے ؟ اس سوال کے جواب مختلف اہل ادب نے مختلف دیے ہیں۔ بعض نے اس کو بدل کے مفہوم میں لیا ہے جو وضاحت کے طور پر آیا ہے۔ اگر یہ توجیہ مانلی جائے تو یہ اس پہلو سے صحیح ہے کہ جو بدل وضاحت کے طور پر آتا ہے وہ در حقیقت تاکید ہی کے لئے آتا ہے۔ اس صورت میں متکلم گویا اپنی بات سادہ الفاظ میں پھر مخاطب کے سامنے دھرا دیتا ہے کہ اچھی طرح اس کے ذہن نشین ہوجائے۔ یہاں سیاہ قسم کے پتھروں کی طرف اس وضاحت کے ساتھ توجہ دلانے کی وجہ یہ ہے کہ مقصودیہ سمجھانا ہے کہ جس طرح پہاڑوں میں سیاہ پتھر ہوتے ہیں اسی طرح لوگوں کے اندر سیاہ قلب افراد ہوتے ہیں اور جس طرح سفید و سرخ اور سیاہ پتھروں کا الگ الگ مصرف ہے۔ اسی طرح سیاہقلب افراد کا بھی ایک محل اور مصرف ہے جس کے لئیقدرت نے ان کو اس دنیا میں مہلت دی ہے۔
Top