Tadabbur-e-Quran - Faatir : 40
قُلْ اَرَءَیْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ١ۚ اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰى بَیِّنَتٍ مِّنْهُ١ۚ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا
قُلْ : فرما دیں اَرَءَيْتُمْ : کیا تم نے دیکھا شُرَكَآءَكُمُ : اپنے شریک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا اَرُوْنِيْ : تم مجھے دکھاؤ مَاذَا : کیا خَلَقُوْا : انہوں نے پیدا کیا مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین اَمْ : یا لَهُمْ : ان کے لیے شِرْكٌ : ساجھا فِي السَّمٰوٰتِ ۚ : آسمانوں میں اَمْ : یا اٰتَيْنٰهُمْ : ہم نے دی انہیں كِتٰبًا : کوئی کتاب فَهُمْ : پس (کہ) وہ عَلٰي بَيِّنَةٍ : دلیل (سند) پر مِّنْهُ ۚ : اس سے ۔ کی بَلْ : بلکہ اِنْ : نہیں يَّعِدُ : وعدے کرتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) بَعْضُهُمْ : ان کے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے سے) اِلَّا : سوائے غُرُوْرًا : دھوکہ
کہو، ذرا تم دیکھو تو اپنے ان شریکوں کو جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو ! مجھے دکھائو، انہوں نے زمین میں سے کیا پیدا کیا یہ ! کیا ان کی آسمانوں میں کوئی حصہ داری ہے ؟ آیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے تو وہ اس کی کسی واضح دلیل پر ہیں ! بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے محض پرفریب وعدے کر رہے ہیں۔
آیت 40 یہ ان کے شرکاء کی بےحقیقتی کی طرف توجہ دلائی کہ کیا ان کے بل پر خد ا کی پکڑ سے نچنت بیٹھے ہو ! ذرا ان کو دیکھو تو بھلا ان کی کیا حقیقت ہے ! ’ اور ءیتم ‘ اس طرح کے مواقع ہیں اظہار تعجب اور تحقیر کے لئے آتا ہے۔ فرمایا کہ اگر زمین میں سے کوئی چیز انہوں نے پیدا کی ہو تو وہ مجھے دکھائو۔ یا آسمانوں میں ان کی کوئی حصہ داری ہو تو وہ مجھے بتائو۔ ’ ام اتینھم کتابا الایۃ ‘۔ اس ٹکڑے میں اسلوبِ کلام بدل کر حاضر کے بجائے غائب کا ہوگیا ہے جس سے تعجب اور اظہار بیزاری کے مضمون میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فرمایا کہ جب آسمانوں اور زمین میں کسی نوعیت سے ان کی کوئی حصہ داری ثابت نہیں تو آخر کس دلیل کی بنا پر ان کو خدا کی خدائی میں انہوں نے شریک بنایا ہے ؟ کیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے جس میں ہم نے تسلیم کیا ہو کہ فلاں اور فلاں ہماری خدائی میں شریک ہیں اور انہوں نے اس کی سند پر ان کو ہمارا شریک بنایا ہے ! ’ بل ان یعد الظلمون بعضھم بعضا الا غرورا۔ ‘ یعنی ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے نہ کوئی سند۔ بلکہ یہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے لوگ بس یوں ہی بےدلیل و سند ایک دوسرے کو سبز باغ دکھا رہے ہیں کہ ان کے فلاں بت کے قبضہ میں یہ یہ اختیارات ہیں اور فلاں کی عبادت سے یہ برکات حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی یہ ساری باتیں محض فریب ہیں جس میں ان کے لیڈر ان کو مبتلا کیے ہوئے ہیں۔
Top