Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 45
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جاتا ہے اللہ وَحْدَهُ : ایک۔ واحد اشْمَاَزَّتْ : متنفر ہوجاتے ہیں قُلُوْبُ : دل الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ ۚ : آخرت پر وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ : ذکر کیا جاتا ہے الَّذِيْنَ : ان کا جو مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِذَا : تو فورا هُمْ : وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوش ہوجاتے ہیں
اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر آتا ہے تو یہ خوش ہوجاتے ہیں۔
آیت 45 شفاعت باطل کا عقیدہ آخرت کی باز پرس یس فرار کے لئے ایک چور دروازہ ہے یہ شرک و شفاعت کے وجود میں آنے کے ایک بہت بڑے سبب کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ آخرت خدا کے عدل کامل اور جزاء و سزا کے ظہور کا دن ہے اور اس کے ماننے سے انسان پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں اس وجہ سے جو لوگ ان ذمہ داریوں سے گریز اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ شرک و شفاعت کی آڑ لیتے ہیں وہ ایمان و عمل کے تقاضے پورے کرنے کا نہ حوصلہ رکھتے اور نہ اپنے نفس کی خواہشوں پر کوئی پابندی ہی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اس وجہ سے اول تو وہ آخرت کو مانتے ہی نہیں اور اگر مانتے بھی ہیں تو شرک و شفاعت کا عقیدہ ایجاد کر کے اس کے تمام خطرات سے اپنے زعم کے مطابق وہ اپنے آپ کو محفوظ کرلیتے ہیں ان لوگوں کا سارا اعتماد اپنے مزعومہ شفعاء کی شفاعت پر ہوتا ہے اس وجہ سے اگر ان کے سامنے توحید کا ذکر آئے تو ان کے دل بھینچنے لگتے ہیں اس لئے کہ پھر آخرت ان کے سامنے اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ آن کھڑی ہوتی ہے۔ البتہ جب ان کے مزعومہ شرکاء و شفعاء کا ذکر ہو تب وہ اطمینان کا سانس لیتے ہیں اس لئے کہ اس صورت میں ان کو آخرت سے بےقید زندگی گزارنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شفاعت باطل کا عقیدہ درحقیقت آخرت کی ذمہ داریوں سے گریز کے لئے ایک چور دروازہ ہے۔
Top