Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 9
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
اَمَّنْ : یا جو هُوَ : وہ قَانِتٌ : عبادت کرنے والا اٰنَآءَ الَّيْلِ : گھڑیوں میں رات کی سَاجِدًا : سجدہ کرنے والا وَّقَآئِمًا : اور قیام کرنے والا يَّحْذَرُ : وہ ڈرتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَيَرْجُوْا : اور امید رکھتا ہے رَحْمَةَ : رحمت رَبِّهٖ ۭ : اپنا رب قُلْ : فرما دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْلَمُوْنَ : وہ علم رکھتے ہیں وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ : جو علم نہیں رکھتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : نصیحت قبول کرتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
کیا وہ جو عاجزانہ شب کے اوقات میں اپنے رب کے آگے سجود و قیام میں آخرت سے اندیشہ ناک اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے (اور دوسرے جو ان صفات سے عاری ہیں یکساں ہوجائیں گے ؟) پوچھو، کیا علم و بصیرت رکھنے والے اور وہ جو علم و بصیرت نہیں رکھتے دونوں برابر ہوں گے ؟ یاد دہانی تو اہل عقل ہی حاصل کرتے ہیں
2۔ آگے کا مضمون آیات 20-9 پہلے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی جن لوگوں نے شرک و شفاعت کا عقیدہ ایجاد کیا ہے انہوں نے اپنے زعم میں خدا کے نزدیک نیک اور بد دونوں کو بالکل یکساں کردیا ہے۔ حالانکہ یہ چیز بالبداہت غلط ہے۔ بصیرت و معرفت رکھنے والے اور اپنی عقلوں کو اپنی خواہشوں کی لونڈی بنا دینے والے زونوں خدا کے ہاں یکساں نہیں ہو سکتے۔ پھر مسلمانوں کو، جو اس دور میں ہر قسم کے مظالم کے ہدف بنے ہوئے تھے۔ تسلی دی کہ تم اللہ کی توحید کردی گئی تو اطمینان رکھو کہ خدا کی زمین تنگ نہیں ہے۔ پھر نبی ﷺ کی زبان سے شرک اور شرکاء سے نہایت آشکارا طور پر اعلان برأت کرایا ہے تاکہ کفار پر حقیقت واضح ہوجائے کہ جبر و ظلم کے ذریعہ سے وہ اللہ کے بندوں کو شرک کے آگے نہیں جھکا سکتے۔ آخر میں مسلمانوں کو فوز و فلاح کی بشارت اور نبی ﷺ کو تسلی دی ہے کہ تمہارے دعوت انہی لوگوں کو پایل کرے گی جن کے اندر عقل ہے، جو اپنی شامت اعمال سے جہنم کے ایندھن بن چکے ہیں ان کو ہدایت کی راہ پر لانا تمہارا کام نہیں ہے … اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (آیت) عربیت کا ایک اصلوب یہ وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہوچکی ہے کہ اس قسم کے سوالیہ جملوں میں کلام کا ایک جزو محذوف ہوتا ہے جو متکلم کے زور بیان سے واضح ہوجاتا ہے۔ آگے آیت 22 میں بھی اس کی مثال آرہی ہے۔ یہ اسلوب متکلم کی شدت یقین پر بھی دلیل ہوتا ہے اور اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس سوال کے جواب میں مخاطب کے لئے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مزید برآں بات کا ایک حصہ بغیر اظہار کے ظاہر ہوجاتا ہے۔ کے اوقات میں، اپنے رب کے آگے کبھی سجدہ میں ہے کبھی قیام میں، وہ آخرت سے درتا اور اپنے رب کی کہ کسی رحمت کی کوئی بردا ہے دونوں یکساں ہوجائیں گے۔ شفاعت باطل کا عقیدہ حق و باطل دونوں کو یکساں کردیتا ہے اس سوال سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ یہ دونوں خدا کے نزدیک یکساں نہیں ہو سکتے اور یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ اس سے مخاطب کے لئے بھی انکار کی گنجائش نہیں تھی لیکن اس کے باوجود نادانوں نے شرکت و شفاعت کا عقیدہ ایجاد کیر کے دونوں کو بالکل یکساں کردیا تھا۔ اس لئے جب نجات کا انحصار ایمان و عمل صالح کے بجائے دیویوں دیوتائوں کی سفارش پر ہوا تو نہ خدا کے عدل کا کوئی اندیشہ باقی رہا نہ ایمان و عمل صالح کی کوئی ضرورت رہی۔ آیت کے اسلوب اور اس کے موقع پر محل کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے اجزاء پر نگاہ ڈلایے۔ قنوت کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کے لئے تواضح فروتنی اور نیاز مندی ہے۔ یہ ایک قلبی حالت ہے جس کا بہترین اظہار نماز، بالخصوص شب کی نمازوں سے ہوتا ہے۔ انا الیل کی قید خاص طور پر اس وجہ سے لگائی ہے کہ شب کی نماز ریا کے شائبہ سے پاک ہوتی ہے اس وجہ سے جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں اللہ کے لئے انکی نیاز مندی شبہ سے بالاتر ہے۔ ساجدا وقائما ان کی نماز کی تصویر ہے کہ کبھی سجید میں پڑے ہوئے ہیں، کبھی حالت قیام میں ہیں۔ اس سے ان کی بےچینی کا اظہار ہو رہا ہے جب دوسرے اپنے نرم بستروں میں پڑے ہوئے غافل کر رہے ہوتے ہیں وہ اپنے رب کی رضا کی طلب میں سجود قیام میں ہوتے ہیں۔ یحذرا الاخرۃ ویرجوا رحمۃ ربہ یہ ان کی نماز کے باطن کا بیان ہے کہ آخرت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید نے ان کے اندر یہ بےقرار پیدا کی ہے کہ وہ اپنے بستروں سے الگ ہو کر کبھی سجدے میں ہیں کبھی قیام میں۔ خدا کے ساتھ بندے کے تعلق کے متوازن ہونے کی شرط یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خدا کے ساتھ بندے کا تعلق متوازن اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خوف اور جادونوں کے بین بین رہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی زیادہ غلبہ ہوجائے تو توازن بگڑ جاتا ہے۔ اگر رجائیت غالب ہوجائے تو خدا کے عدل سے انسان بےپروا ہوجاتا ہے ج س سے مرجیت بلکہ اباحیت کے دروازے آدمی اپنے لئے کھول لیات ہے۔ اگر خوف کا غلبہ ہوجائے تو اس سے اس کے اندر مایوسی اور قنوطیت راہ پاتی ہے اور یہ چیز بھی فتنے پیدا کرتی ہے۔ سابق ادیان کے پیروئوں میں اس عدم توازن سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔ قرآن نے اس کی طرف اشارات کئے ہیں اور ہم ان کی طرف توجہ دلاتے آ رہے ہیں۔ قرآن کے نزدیک حقیقی اہل علم ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون اس سے اس محذوف پر روشنی پڑ رہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ اہل علم اور غیر اہل علم دونوں اللہ کے نزدیک یکساں ہوجائیں ؟ اس سے یہ بات آپ نکلی کہ قرآن کے نزدیک اہل علم وہی ہیں جن کی تعریف امن ھو قانب انا الیل ساجداً وقآئما یحذرا الاخرۃ و یرجوا رحمۃ ربہ کے الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔ جن کے اندر یہ صفت موجود نہیں ہے وہ قرآن کے نزدیک علم سے عاری ہیں اگرچہ وہ چاند اور مریخ تک سفر کر آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زند گی کی رہنمائی کے لئے اصلی علم یہ ہے کہ انسان کو یہ پتہ ہو کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے کہاں منتہی ہوگی، اس کے خالق کی صفات کیا ہیں اور اس کے ساتھ انسان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ اگر اس علم کی کلید اس کے ہاتھ آگئی تو وہ اپنی زندگی کا مقصد و منتہا سمجھ جائے گا اور اگر یہ علم حاصل نہ ہوسکا تو وہ ادنھیرے ہمیں ہے اگرچہ وہ آسمان و زمین کا طول و عرض ناپ ڈالے۔ اور اگر یہ علم حاصل نہ ہوسکا تو وہ ادنھیرے میں یہع اگرچہ وہ آسمان و زمین کا طول و عرض ناپ ڈالے۔ انما یتذکروالوالباب یعنی یہ حقائق ہیں تو بالکل واضح لیکن بات کو تسلیم کرنے کے لئے صرف اس کا واضح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ مخاطب عقل والے ہوں اور ان حقائق کو سننے اور سمجھنے کے لئے اپنی عقل استعمال بھی کریں۔ جن لوگوں کے اندر نہ علم ہے نہ عقل وہ لوگ واضح سے واضح بات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس میں ضمناً آنحضرت ﷺ کو یہ تسلی بھی دے دی گئی کہ اگر یہ لوگ قرآن کی ان یاد دہانیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں تو اس میں قصور نہ تمہارا ہے نہ قرآن کا بلکہ یہ لوگ خود ہی بالکل بلید اور کو دن ہیں۔
Top