Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 38
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ
حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَنَا : جب وہ آئے گا ہمارے پاس قَالَ : کہے گا يٰلَيْتَ : اے کاش بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكَ : اور تمہارے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ : دوری ہوتی دو مشرقوں کی فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ : تو بہت برا ساتھی (نکلا)
یہاں تک کہ جب یہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق کے دونوں کناروں کی دوری ہوتی اپس کیا ہی برا ساتھی ہوگا !
حتی اذا جآء نا قال یلیت بینی دبینک بعد المرشقین فئس القرین (38) یعنی اس دنیا میں تو اس قسم کے ساتھیوں میں خوب گاڑھی چھنتی ہے لیکن جب آخرت میں ہمارے آگے پیشی ہوگی اور اس دوستی کا انجام سامنے آئے گا تو جس نے کسی شیطان کے پھندے میں پھنس کر اپنی عاقبت پر باد کی ہوگی وہ اپنے ساتھی پر لعنت بھیجے گا اور کہے گا کاش میرے اور تیرے درمیان مشرقین کی دوری ہوتی ! ! بئس القرین یہ اس برے ساتھی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہار نفرت و لعنت ہے کہ کیا ہی برا ساتھی ثابت ہوا وہ جس نے بالآخر اپنے ساتھی کو اس کھڈ میں لا گرایا۔ زبن کا ایک اسلوب مشرقین کا مفہوم عام طور پر مفسرین نیمشرق اور مغرب لیا ہے لیکن میرے نزدیک یہ نہیں ہے۔ عربی میں بعض مرتبہ مثنیٰ کسی شئے کے دونوں کناروں کی وسعت کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ ایسی بھی کسی شے کے اطراف و اکناف کی وسعت کے اظہار کے لئے آتی ہے۔ قرآن میں مغربین و مشرقین، اور مشارق، و مغارب، وغیرہ الفاظ اسی پہلو سے اسعتمال ہوئے ہیں۔ اس کی واضحت دوسرے محل میں ہوچکی ہے۔
Top