Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے ایمان والو، ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراو جو خدا نے تماہرے لیے جائز کی ہیں اور نہ حدود سے تجاوز کرو۔ اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
آگے کا مضمون۔ آیات 87 تا 120: آگے کا حصہ، آخر سورة تک، خاتمہ سورة کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں انہی باتوں سے متعلق، جو اس سورة کے شروع میں بیان ہوئی ہیں یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، بعد میں جو سوالات پیدا ہوئے ہیں یا پیدا ہوسکتے تھے، ان کے جوابات دیے گئے ہیں اور یہ اشارہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ یہ توضیحی آیات ہیں۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی ہے کہ جو سوالات مفید تھے ان کے جوابات دے دیے گئے ہیں، رہے غیر ضروری سوالات تو اس قسم کے سولات نزول قرآن کے دوران نہ پوچھو۔ غیر ضروری سوالات پوچھ پوچھ کر یہود نے اپنے اوپر بہت سی قیدیں اور پابندیاں عائد کرا لیں، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان کو نباہ نہ سکے اور بالآخر کفر میں مبتلا ہوئے۔ آخر میں قیام عدل و قسط اور شہادت حق کی اس عظیم ذمہ داری کے تعلق سے، جو اس سورة میں مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کا ذکر آیت 8 میں ہوا ہے، اس شہادت کی تفصیل بیان ہوئی ہے جو حضرات انبیاء (علیہم السلام) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور میں دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو بےکم وکاست وہ حق پہنچا دیا تھا جس کے پہنچا دینے کی ان پر ذمہ داری ڈالی گئی تھی۔ رہی یہ بات کہ ان کی امتوں نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا تو یہ ان امتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس تفصیل سے مقصود یہود و نصاری کو عموماً اور اس امت کو خصوصاً یہ بتانا مقصود ہے کہ اسی شہادت کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر امت پر حجت تمام کرے گا اور جس امت نے نبی کی تعلیم و شہادت کے خلاف اللہ کے دین میں کوئی ردو بدل کیا ہوگا وہ اس کی ذمہ دار ٹھہرے گی۔ یہاں اگرچہ مثال صرف حضرت عیسیٰ کی شہادت کی پیش کی گئی ہے، اور اس کے کچھ وجوہ ہیں جن کی تفصیل اپنے محل میں آئے گی، لیکن مقصود یہ بتانا ہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام انبیاء سے شہادت لے گا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ بھی اسی طرح شہادت دیں گے اور اسی شہادت کی بنا پر آپ کی امت پر حجت قائم ہوگی۔ یہ گویا تنبیہ ہے اس امر کے لیے کہ جو لوگ اب قوامین للہ شہداء بالقسط بنائے جا رہے ہیں اور جن سے شریعت الٰہی پر قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد لیا جا رہا ہے وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آخرت کی اس شہادت کو یاد رکھیں۔ گویا سورة کے شروع میں اس امت سے جو میثاق لیا گیا ہے، سورة کے آخر میں اس کی اخروی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کردی گئی۔ یہ آگے کے مضامین کے نظم کو سمجھنے کے لیے چند نشانات کی طرف ہم نے اشارہ کردیا ہے۔ تفصیل آیات کی تفسیر کے تحت آئے گی۔ اس روشنی میں اب آیات کی تلاوت فرمائیے : تفسیر آیات 87۔ 88:۔ يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۔ وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا ۠وَّاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۔ طیبات کی وضاحت : طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ ، اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں ہمارے لیے حلال ٹھہرائی ہیں اگرچہ وہ سب طیبات کے حکم میں ہیں اس وجہ سے یہاں اس لفظ کے اضافہ کی بظاہر ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن اس کا ایک خاص فائدہ ہے۔ وہ یہ کہ بعض اوقات چیز تو فی الاصل جائز ہوتی ہے لیکن کسی خارجی سبب سے اس کو خباثت لاحق ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک جانور حلال ہے لیکن اس کو ذبح نہیں کیا گیا یا ذبح تو کیا گیا لیکن اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا یا اس کو کسی تھان یاس استھان کی نذر کیا گیا تو ان صورتوں میں وہ جانور جائز ہونے کے باوجود طیب و پاکیزہ نہیں رہے گا۔ اس وجہ سے وہ ناجائز قرار پائے گا۔ اعتداء کا مفہوم : لا تَعْتَدُوْا یہاں لَا تُحَرِّمُوْا کا مقابل ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کی جائز کرہ دہ چیزوں میں سے طیبات کو حرام ٹھہرانا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا لینا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ اعتداٗ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں ہمارے لیے پیدا کی ہیں، ہمیں ان کے کھانے پینے اور برتنے کی اجازت ہے۔ گنتی کی چند چیزیں ہیں جو حرام قرار دی گئی ہیں۔ ان کی حیثیت اللہ کے حدود کی ہے اور حدود کو لانگنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ان حدود سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ محارم الٰہی کے حدود میں مداخلت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے گستاخوں اور بیوقوفوں کو پسند نہیں کرتا، " پسند نہیں کرتا "، یعنی ان سے نفرت کرتا ہے۔ لفظ " اعتداء " کا یہی مفہوم آگے آیت 94 میں بھی ہے۔ بعض سوالوں کے جواب : ہم اوپر تمہیدوں میں اشارہ کرچکے ہیں کہ اس سورة کے شروع میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان سے متعلق جو سوالات بعد میں پیدا ہوئے یا پیدا ہوسکتے تھے اب آخر میں ان کی وضاحت کردی گئی ہے۔ پیچھے مڑ کر سورة کی آیات 1۔ 2 پر نظر ڈال لیجیے۔ عہد و پیمان کی پابندی کی تمہید کے بعد یہ بتایا ہے کہ تمہارے لیے تمام چوپائے جائز ٹھہرائے گئے ہیں بجز چند مستثنیات کے جو یہ یہ ہیں۔ اب ان سے متعلق کئی سوالات ہیں جو ذہن میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر اللہ کے نام پر باندھے ہوئے عہد و پیامن کی پابندی کی اہمیت دین میں اس درجہ ہے تو کوئی شخص اگر شریعتِ الٰہی کے خلاف کسی چیز کو اپنے اوپر حرام یا حلال ٹھہرانے کی قسم کھا بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے یا کوئی شخص اپنی کھائی ہوئی قسم کو توڑ دے تو اس کے باب میں کیا ہدایت ہے ؟ اگر شعائر الٰہی، ہدی اور قلائد وغیرہ کی حرمت کی اس درجہ تاکید ہے تو جو جانور قدیم زمانے سے مذہبی رسوم ہی کی بنا پر محترم چلے آ رہے ہیں، مثلاً بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام، ان کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ یہ اور ان کے علاوہ دوسرے متعدد سوالات ابتدا میں بیان کردہ احکام سے متعلق پیدا ہوئے۔ اب یہ قرآن نے ان سوالوں کو لیا ہے اور آگے کی آیات میں ان کے جواب دیے ہیں۔ " تحریم " کا مفہوم : سب سے پہلے یہ جامع اور اصولی بات فرمائی کہ خدا کی شریعت نے جو چیز جائز ٹھہرائی ہے اس کو نہ تو حرام قرار دو اور نہ جن چیزوں سے روکا ہے ان کو جائز بناؤ۔ " حرام ٹھہرانے " سے مراد کسی شے کو اس حیثیت سے اپنے لیے یا دوسروں کے لیے ممنوع ٹھہرانا ہے کہ اس کے متعلق وہ یہ گمان یا دعوی کرے کہ یہ خدا کا حکم ہے، یا اس پر عذاب وثواب مترتب ہوتا ہے یا یہ نیکی اور فضیلت میں داخل ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی بات نہ ہو بلکہ مجرد ذوق یا باقتضائے صحت یا بربنائے احتیاط و کفایت کسی چیز کا استعمال کوئی شخص ترک کردے تو یہ چیز تحریم میں داخل نہیں ہے۔ اپنے جی سے تحریم و تحلیل حدود الٰہی میں مداخلت ہے۔ یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تحریم و تحلیل حاکمیت الٰہی کے حدود میں مداخلت اور نقض میثاق کا نہیات وسیع دروازہ ہے۔ یہ مداخلت جس طرح حرام کو حلال کرنے کی راہ سے ہوئی ہے اسی طرح حلال کو حرام قرار دینے کی راہ سے بھی ہوئی ہے۔ حرام کو حلال کرنے کی راہ تو زیادہ تر خواہشات نفس کی تحریک سے کھلی ہے لیکن حلال کو حرام ٹھہرانے کے معاملہ میں زیادہ دخل مشرکانہ عقائد و اوہام کو رہا ہے چناچہ مشرکین عرب نے اپنے مشرکانہ تصورات کے تحت بہت سی چیزیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں۔ آگے آیت 103 میں بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا ذکر آرہا ہے۔ مزید تفصیل سورة انعام میں یوں آئی ہے " وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لا يَطْعَمُهَا إِلا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (138) وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الأنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (139): اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں چوپائے اور فلاں فلاں قسم کی زمینی پیداوار حرام ہے، ان کو نہیں کھا سکتے مگر وہی جن کو ہم بتائیں۔ ان کا یہ دعوی محض اٹکل پچو ہے۔ اور کچھ جانور میں جن پر سواری حرام کردی گئی ہے اور کچھ پر خدا کا نام نہیں لیتے، خدا پر جھوٹ باندھتے ہوئے، اللہ ان کے اس افترا کا ان کو جلد بدلہ دے گا اور وہ کہتے ہیں کہ جو بچے فلاں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں وہ خاص مردوں ہی کے لیے جائز ہیں، عورتوں کے لیے وہ حرام ہیں اور اگر وہ مردہ پیدا ہوں تو مرد اور عورت دونوں ان کو کھا سکتے ہیں، اللہ ان کے اس فتوے کی ان کو جلد سزا دے گا، وہ حکیم وعلیم ہے " (انعام :138۔ 139)۔ اسی طرح یہود کے متعلق بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ بہت سی چیزیں انہوں نے اپنے من گھڑت فتو وں، اپنے لا یعنی سوالات اور اپنے مشرکانہ اوہام کی بنا پر اپنے اوپر حرام کرلیں۔ قرآن نے اس قسم کی خود مختارانہ تحریم و تحلیل کو توحید اور ایمان کے منافی قرار دیا۔ فرمایا کہ تمام حلال و طیب چیزیں جو خدا نے تمہیں بخشی ہیں ان کو کھاؤ پیو اور برتو، اپنے زمانہ جاہلیت کے توہمات کی بنا پر ان سے احتراز نہ کرو، اور اس اللہ سے ڈرو جس پر ایمان لائے ہو
Top