Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہارے اندر بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ؟
وفی انفسکم افلاتصرون 21 انفس کے بعض دلائل کی طرف اشارہ یہ روز جزاء و سزا پر انفس کے دلائل کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن نے جس طرح آفاق سے اپنی دعوت کے تمام بنیادی اجزاء پر استدلال کیا ہے۔ اسی طرح انفس سے بھی تمام اصولی مطالب پر دلیل قائم کی ہے جن کی وضاحت اس کتاب میں ان کے محل میں ہم کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں ہم بالا جمال صرف جزاء و سزا سے متعلق چند باتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔ …قرآن نے جگہ جگہ انسان کی غفلت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو خدا حقیر پانی کی ایک بوند کو مختلف اطوار و مراحل سے گزار کر، ایک بھلا چنگ انسان بنا کھڑا کرتا ہے اور اس کو گوناگوں ظاہری و باطنی صلاحیتوں سے آراستہ کردیتا ہے کہ اس کے لئے ناممکن خیال کرتے ہو کہ تمہارے مرکھپ جانے کے بعد تم کو از سر نو زندہ کر کے اٹھائے اور تمہارے تمام اعمال و اقوال کا حساب کرے ! جب پہلی بار تمہار اپیدا کیا جانا اس کے لئے ناممکن نہیں ہوا تو دوبارہ یہی کام اس کے لئے کیوں ناممکن ہوجائے گا ؟ اسی ضمن میں جگہ جگہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ ہر آدمی ہر روز اپنے اندر زندگی، موت، برزخ اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے مشاہدات کو یوں ہی نہ گزر جانے دے بلکہ ان پر غور کرنے کی عادت بھی ڈالے۔ انسان کے مرتبہ خلافت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ خدا کے آگے اس کی پیشی ہو …انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل، ادراک اور علم کی جن صلاحیتوں سے آراستہ فرمایا ہے جن فطری قوتوں اور قابلیتوں سے اس کو مسلح کا ی ہے، ان کی روشنی میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ انسان زمین کے دوسرے جانداروں کی طرح اس زمین ہی کی مخلوق نہیں ہے بلکہ اس کا متربہ بہت بلند ہے یہ خدا کی طرف سے ایک خاص دائرہ میں اتخیار و ارادہ کی امانت کا حامل ہو کر آیا ہے جس کی بنا پر خدا نے اس کو اپنی خلافت کے مرتبہ بلند پر سرفراز فرمایا ہے۔ اس امانت و خلافت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ایک دن وہ اپنے رب کے آگے پیش ہوتا کہ جس نے اس امانت و خلافت کا حق ادا کیا ہو وہ اس کا ابدی انعام حال کرے اور جس نے اس امانت میں خیانت اور خلافت پا کر بغاوت کا ارتکاب کیا ہو وہ اس کی ابدی سزا بھگتے گویا جزاء و سزا نسان کے مرتبہ خلافت پر سرفرازی کا ایک لازمی اور بدیہی تقاضا ہے۔ یہ دلیل قرآن میں بھی بیان ہوئی ہے اور سیدنا مسیح ؑ نے بھی اس کو نہایت خوبصورت تمثیلوں سے واضح فرمایا ہے۔ انسان کے اندر نفس لوامہ کا وجود قیامت کے وجود کی دلیل ہے …تیسری اہم حقیقت جو سورة قیامہ میں خاص اہتمام کے ساتھ واضح فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک نفس لوامہ ودیعت فرمایا ہے جو اس کو جب وہ کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے، ملامت کرتا ہے اسی نفس لوامہ کی قسم کھا کر جزاء و سزا کے حق ہونے پر اس کو شہادت میں پیش کیا ہے کہ اگر انسان کو وجود میں لانے والا نیکی پر انعام اور بدی پر سزا دینے والا نہ ہوتا تو انسان کے اندر وہ اس نفس لوامہ کو کیوں ودیعت فرماتا جو اس کو ہمیشہ ایک خلش میں مبتلا رکھے ؟ اس کا ودیعت کیا جانا تو اس بات کی نہایت واضح شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس مجموعی کائنات کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو روز قیامت مقرر کر رکھا ہے اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہر انسان کے سینے میں رکھ دے جو اس کو برابر اس حقیقت کی یاد دہائی کرتا رہے کہ جس خدا نے اس کو وجود بخشا ہے وہ اس کی نیکی اور بدی سے بےتعلق نہیں ہے بلکہ وہ جزاء و سزا دینے والا ہے۔ گویا یہ انسان کے اندر ایک چھوٹی سی عدالت اس عدالت کبریٰ کی یاد ددہانی کے لئے ہے جو قیامت کے دن قائمہو گی۔ اسی بناء پر انسان کو عالم اصغر کہا گا ہے اس لئے کہ اس پورے عالم کا ایک عکس اس کے آئینہ میں موجود ہے۔ سورة قیامہ میں فرمایا گیا ہے کہ جزاء و سزا کی شہادت ہر آدمی خود اپنے اندر پا رہا ہے اگرچہ وہ اس کی تکذیب کے لئے کتنے ہی بہانے پیدا کرے، بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ولوالقی معاذ یرہ (القیامۃ : 15-14) اسی طرح اس سورة میں یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ جو شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے وہ درحقیقت خدا کی عدالت کے سامنے جرم کرتا ہے، بل یرید الانسان لیفجرا مامہ (القیامۃ : 5) (بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے سامنے شرارت کرے) اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ خدا کی ایک چھوٹی سی عدالت اس کے ضمیر کے اندر ہی موجود ہے اس وجہ سے جو شخص بھی کوئی جرم کرتا ہے وہ درحقیقت اسی عدالت کے سامنے کرتا ہے اور یہ اس کی ایک کھلی ہوئی جسارت ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ نفس لو امہ، انسان کو متنبہ کرنے کا فرض اس وقت تک برابر انجام دیتا رہتا ہے جب تک انسان اس کی مسلسل خلاف ورزی سے اس کو بالکل مردہ نہ بنا دے اس سنت الٰہی کی وضاحت اس کے محل میں ہم کرچکے ہیں۔ افلا تبصرون انسان کا نفس چونکہ اس سے سب سے زیادہ قریب ہے اس وجہ سے فرمایا کہ کیا اتنی قریب کی نشانیاں بھی تم کو نظر نہیں آرہی ہیں ! یعنی اگر زمین کے اطراف و اکناف تمہارے احاطے سے باہر ہیں، اگر آسمان تمہاری دسترس سے بعید ہے تو کیا تمہارا نفس بھی تم سے دور ہے کہ تم اس کے اندر جھانک کر ان نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتے !
Top