Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 120
وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
وَذَرُوْا : چھوڑ دو ظَاهِرَ الْاِثْمِ : کھلا گناہ وَبَاطِنَهٗ : اور اس کا چھپا ہوا اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے) ہیں الْاِثْمَ : گناہ سَيُجْزَوْنَ : عنقریب سزا پائیں گے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : تھے يَقْتَرِفُوْنَ : وہ برے کام کرتے
اور چھوڑو گناہ کے ظاہر کو بھی اور اس کے باطن کو، بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں وہ عنقریب اپنی اس کمائی کا بدلہ پائیں گے۔
وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَهٗ ، یہ اوپر والی بات ہی کی تاکید ایک اور لطیف و دقیق پہلو سے ہے۔ شرک اور مظاہر شرک دونوں کو چھوڑنے کا حکم : ہر برائی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اس کا باطنی پہلو، دوسرا اس کا ظاہری پہلو۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک تو اس کی حقیقت ہوتی ہے جس کا مسکن انسان کا نفس اور اس کا دل ہوتا ہے، دوسرے اس کے وہ مظاہر و اشکال ہوتے ہیں جن میں انسانی زندگی کے اندر وہ نمایاں ہوتی ہے۔ مثلاً شرک کی ایک تو حقیقت ہے جو یہ ہے کہ خدا کی ذات یا صفات یا اس کے حقوق میں کسی کو شیک ماننا، دوسرے اس کے مظاہر و اشکال ہیں مثلاً اصنام، انصاب، ازلام، بحیرہ، سائبہ وصیلہ، حام اور اس نوع کی دوسری چیزیں جو کسی شرکیہ عقیدے یا تصور کا عملی مظہر اور نشان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں بڑا گہرا ربط ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے سہارے سے پروان چڑھتی اور غذا و قوت حاصل کرتی ہیں۔ اس وجہ سے اگر کسی برائی اکا استیصال مقصود ہو تو یہ ضروری ہوگا کہ اس برائی کی حقیقت اور اس کے مظاہر و اشکال دونوں کا استیصال کیا جائے۔ اس کے بغیر اس کا استیصال ناممکن ہے۔ اگر یہ خیال کر کے اشکال و مظاہر سے چشم پوشی برتی جائے کہ جب اصل برائی پر ضرب لگا دی گئی تو اشکال و مظاہر میں کیا رکھا ہوا ہے تو وہ برائی انہی اشکال میں پھر اپنا نشیمن بنا کر اس میں اپنے انڈوں بچوں کی پرورش شروع کردیتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کا پورا کنبہ از سرِ نو آباد ہوجاتا ہے۔ یہاں زیر بحث آیت میں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح شرک کو چھوڑنا ضروری ہے اسی طرح شرکیہ عقائد و تصورات کی بنا پر جن چیزوں کو مقدس مان کر حرام ٹھہرایا گیا ہے ان کے تقدس اور ان کی حرمت کو بھی ختم کرو اور عام جانوروں کی طرح ان کو بھی خدا کے نام پر ذبح کرو اور بےتکلف ان سے فائدہ اٹھاؤ۔ اگر ان کے باب میں کوئی جھجک طبیعت میں باقی رہتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی شرک کی جڑ دل کے اندر باقی ہے۔ اگر جڑ باقی نہیں ہے تو آخر یہ اس کی شاخوں کو غذا کہاں سے مل رہی ہے ؟ اس حقیقت کی طرف آگے بھی اسی سورة میں یوں توجہ دلائی ہے ولا تقربوا الفواحش ما ظھر منہا ومابطن : اور بےحیائی کی باتوں کے قریب نہ پھٹکو، خواہ ظاہری ہو یا باطنی (انعام :151)۔ اسی اصول کے تحت نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد شرک کے تمام آثار و مظاہر کا یک قلم خاتمہ کردیا۔ زیر بحث آیت میں لفظ اثم اگرچہ عام ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ یہاں مراد شرک ہی ہے۔ خیر اور مظاہر خیر، دونوں کی نگہداشت : یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ جو حال برائیوں کا مذکور ہوا بعینہ وہی حال بھلائیوں کا بھی ہے۔ ان میں سے بھی ہر ایک کی ایک تو حقیقت ہوتی ہے اور کچھ اس کے اشکال و مظاہر ہوتے ہیں، اور جس طرح برائی کے استیصال کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ شتر کے ساتھ ساتھ بچہ شتر کا بھی خاتمہ کیا جائے ورنہ وہ برائی ختم نہیں ہوتی اسی طرح کسی بھلائی کے فروغ دینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی حقیقت کے ساتھ اس کے مظاہر و اشکال کو بھی فروغ دیا جائے اگر مظاہر و اشکال کو فروغ نہ دیا جائے تو وہ بھلائی بھی دب دبا کر رہ جاتی ہے اس کو نشوونما نہیں حاصل ہوتی، اس مسئلے پر انشاء اللہ ہم اس کے محل میں گفتگو کریں گے۔ آگے اعرف کی آیت 23 کے تحت بھی یہ بحث آئے گی۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا يَقْتَرِفُوْنَ ، یہ ان لوگوں کو دھمکی ہے جو ان بےاصل بدعات کی حمایت میں پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں سے بحث و مجادلہ کر رہے تھے۔ فرمایا کہ تم ان تمام بدعات کے ظاہر و باطن دونوں سے اپنے کو پاک کرو، رہے یہ لوگ جو اس بس بھری فصل کی کاشت کر رہے ہیں وہ بہت جلد اس کا حاصل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
Top