Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 47
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : تم دیکھو تو سہی اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ اللّٰهِ : عذاب اللہ کا بَغْتَةً : اچانک اَوْ جَهْرَةً : یا کھلم کھلا هَلْ : کیا يُهْلَكُ : ہلاک ہوگا اِلَّا : سوائے الْقَوْمُ : لوگ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
پوچھو، بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر بیخبر ی میں اچانک آدھمکے یا ڈنکے کی چوٹ آئے تو ظالموں کے سوا اور کون ہلاک ہوگا ؟
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً الایۃ۔ بغتۃ کے معنی کسی چیز کے اچانک، دفعۃً بغیر کسی نوٹس کے، بالکل بیخبر ی میں آجانے کے ہیں ، ‘ جھرۃ ’ کے معنی ہیں کھلم کھلا، ڈنکے کی چوٹ، دن دہاڑے۔ مطلب یہ ہے کہ نشانی عذاب کا مطالبہ تو یہ کر رہے ہیں، ان سے پوچھو کہ خدا کا عذاب چپکے سے یا کھلم کھلا دن دہاڑے آئے۔ اول تو اس کو روکے گا کون، پھر ان سے یہ پوچھو کہ یہ بجلی گری تو کن پر گرے گی، انہی ظالموں پر تو گرے گی جو اپنی شامت سے اس کو دعوت دے رہے ہیں اور جو اپنی بد اعمالیوں سے اس کے سزوار ہیں یا کسی اور پر۔ ؟ فیصلہ کن عذاب کے باب میں سنت الٰہی : یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو انبیاء کی تکذیب کرنے والی امتوں پر اتمامِ حجت کے بعد آتا ہے۔ اس عذاب کے معاملے میں سنت اللہ یہ ہے کہ نبی کے جھٹلانے والے ہلاک کردیے جاتے ہیں اور اہل ایمان بچا لیے جاتے ہیں۔ رہی وہ آزمائشیں اور تکلیفیں جو تنبیہ و تذکیر کے لیے آتی ہیں، جن کا ذکر اوپر باساء اور ضراء کے الفاط سے گزرا ہے تو وہ اس امتیاز کے ساتھ نہیں آتیں بلکہ ان میں سب، حصہ پاتے ہیں۔ البتہ اہل ایمان ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اہل کفر بدستور اپنی شرارت پر جمے ہی رہ جاتے ہیں بلکہ، جیسا کہ اوپر گزرا، اس سے کچھ اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔
Top