Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 47
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : تم دیکھو تو سہی اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ اللّٰهِ : عذاب اللہ کا بَغْتَةً : اچانک اَوْ جَهْرَةً : یا کھلم کھلا هَلْ : کیا يُهْلَكُ : ہلاک ہوگا اِلَّا : سوائے الْقَوْمُ : لوگ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
آپ کہہ دیجیے کہ اچھا یہ تو بتلاؤ کہ اگر تمہارے اوپر اللہ کا عذاب اچانک یا خبرداری میں آپڑے تو کیا بجز ظالم لوگوں کے کوئی اور بھی ہلاک کیا جائے گا ؟ ،72 ۔
72 ۔ عذاب الہی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس کا شکار صرف مجرمین ہوتے ہیں اور مطیعین اس سے بچا لئے جاتے ہیں۔ حقا علینا ننج المومنین “۔ (آیت) ’ عذاب اللہ بغتۃ اوجھرۃ “۔ بغتۃ۔ وہ عذاب ہے جو یک بیک اور اچانک بغیر کسی اطلاع کے آجائے۔ اور (آیت) ” جھرۃ “۔ وہ عذاب ہے جو پورے طور پر اظہار علامات کے بعد آئے، مقصود کلام یہ ہے کہ کوئی عذاب کسی قسم کا بھی ہو اس کے دفع کرنے کی قوت وقدرت صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ھذا عام فی جمیع انواع العذاب والمعنی انہ لا دافع لنوع من انواع العذاب الا اللہ سبحانہ (کبیر) اے لایھلک انتم الا بشرککم والظلم ھنا بمعنی الشرک (قرطبی) آیت میں تعلیم اس مضمون کی ہے کہ ہلاکت و بربادی تو بہرحال کافروں ہی کے لئے ہے۔ باقی مومن کے لئے تو خوشحالی اور بدحالی دونوں یکساں نعمت ہی ہیں۔ خوشحالی کا نعمت ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ بدحالی بھی اس معنی میں نعمت ہے کہ وہ کفارۂ سیئات، یارفع مراتب کا کام دے گی، ذلک تنبیہ علی ان المومن المتقی ھو السعید سواء کان فی البلاء اوفی الالاء والنعماء وان الفاسق الکافر ھو الشقی کیف دارت قضیتہ واختلفت احوالہ (کبیر)
Top