Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
ان سے پوچھو، خشکی اور تری کی تاریکیوں سے تم کو کون نجات دیتا ہے جبکہ اسی کو تم پکارتے ہو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر اس نے ہم کو نجات دے دی اس مصیبت سے تو ہم اس کے شکر گزار بندوں میں سے بن جائیں گے ؟
63 تا 64: قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، ظلمات، مصائب اور آفات کی تعبیر ہے، سمندر کی تاریکیوں کا ذکر قرآن نے سورة نور میں یوں فرمایا ہے۔ او کظلمات فی بحر لجی یغشاہ موج من فوقہ موج من فوقہ سحاب، ظلمات بعضہا فوق بعض، اذا اخرج یدہ لم یکد یراھا، یا کسی گہرے سمندر کی تاریکیاں جس میں موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہو، اور اس کے اوپر باد چھائے ہوئے ہوں، تاریکیوں کے اوپر تاریکی، جب اپنا ہاتھ نکالے تو وہ بھی اس کو سجھائی نہ دے، اسی طرح کے طوفانوں اور مصائب سے آدمی کو خشکی میں بھی سابقہ پیش آجاتا ہے۔ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً۔ تدعون، ینجیکم کی ضمیر مفعول سے حال پڑا ہوا ہے۔ لفظ کی تحقیق آیت 44 کے تحت گزر چکی ہے۔ یہاں اس کے بالمقابل خفیۃ کا لفظ ہے جس کے معنی چپکے چپکے کے ہیں۔ اس وجہ سے تضرع کے معنی گڑگڑانے اور آہ وزاری کے ساتھ التجا و فریاد کرنے کے ہوں گے۔ لئن انجانا الایۃ، اسی دعا کا بیان ہے جو اس طرح کے حالات میں ہر شخص کے دل اور زبان پر ہوتی ہے۔ ان آیات میں انسان کی ایک نفسیاتی بیماری سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور ساتھ ہی توحید کی ایک نفسیاتی دلیل کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ سیاق کلام وہی مطالبہ عذاب کی تردید کا ہے جو اوپر سے چلا آرہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسا کا عجیب حال ہے کہ جب کسی آفت میں گرفتار ہوتا ہے تب تو گڑ گڑا کر بھی اور دل میں چپکے چپکے بھی خدا ہی کو پکاراتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ اس مصیبت سے خدا نے نجات دی تو اب اس کا شکر گزار اور فرمانبردار بندہ بن کر زندگی گزاروں گا۔ لیکن جب اس سے نجات پا جاتا ہے تو پھر ناشکری و نافرمنی کی وہی زندگی اختیار کرلیتا ہے جس میں پہلے مبتلا تھا اور یہ سمجھ بیٹھتا ہے گویا خدا کی خدائی سے باہر ہوگیا ہے اور اب کبھی خدا کی پکڑ میں آ ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ اگر خدا کی پکڑ سے اس کو ڈرایا جاتا ہے تو ڈھیٹ ہو کر عذاب کا مطالبہ کرتا ہے کہ عذاب دکھا دو تو مانوں گا۔ فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ سمندر میں یا خشکی میں جب تم کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہو تو کون تم کو اس گردابِ مصیبت سے نجات دیتا ہے جبکہ تم خدا ہی کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو اور یہ عہد کرتے ہو کہ اگر خدا نے ہمیں آفت سے بچایا تو ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر زندگی بسر کریں گے ؟ پھر خود ہی اس کا جواب دلوایا کہ وہ خدا ہی ہے جو تمہیں اس آفت سے بھی نجات دیتا ہے اور دوسری تمام مصیبتوں سے بھی وہی نجات دیتا ہے، خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور خواہ تم ان کے لیے اس کو پکارو یا نہ پکارو، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ اس کے بعد پھر تم شرک کرنے لگتے ہو۔ یہاں دو باتیں خاص طور پر نگاہ میں رکھنے کی ہیں۔ ایک توحید کی نفسیاتی دلیل جو ضمناً بیان ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان کسی سخت مصیبت میں پھسنتا ہے تو وہ خدا ہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، دوسرے تمام سہارے اس کے نزدیک بےحقیقت ہوجاتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی اصل فطرت کے اندر صرف خدا ہی کا اعتماد جاگزیں ہے، دوسری چیزیں محض بناوتی ہیں جو آزمائش کی بھٹی میں پڑھنے کے بعد جھوٹے ملمع کی طرح اڑجاتی ہیں۔ یہ دلیل قرآن میں مختلف اسلوبوں سے نہایت موثر تمثیلوں میں بیان ہوئی ہے، ہم نے اس کی پوری وضاحت اپنی کتاب، حقیقت توحید، میں مستقل عنوان سے کی ہے۔ دوسری یہ کہ یہاں شکر اور شرک کو دو مقابل چیزوں کی ھیثیت سے رکھا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بتوں کو پوجے بلکہ وہ استکبار بھی شرک ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان اللہ کی نعمتوں کو اپنے استحقاق ذاتی کا ثمرہ اور اپنی تدبیر و قابلیت کا نتیجہ سجھنے لگتا ہے اور پھر فخر و غرور کے نشہ میں اکڑتا، دندناتا، اتراتا اور من مانی کرنے لگ جاتا ہے، یہ حالت شکر کی ضد ہے اور جس کے اندر یہ خناس سما جاتا ہے، وہ خود اپنے آپ کو خدائی میں شریک سجھنے لگتا ہے، قرآن نے اس زہنیت کی تصویر سورة کہف میں اس طرح کھینچی ہے۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا (32) كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلالَهُمَا نَهَرًا (33) وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالا وَأَعَزُّ نَفَرًا (34) وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا (35) وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لأجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا (36) قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلا (37) لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا (38): اور ان کے لیے دو شخصوں کی تمثیل بیان کرو۔ اسن میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغ بنائے، ان کو کھجور کے درختوں سے گھیرا اور ان کے درمیان کھیتی اگائی، دونوں باغ خوب پھل لائے، کچھ کمی نہیں کی۔ ہم نے ان کے درمیان ایک نہر جاری کی، اس میں پھل آئے تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا اور وہ اس سے مفاخرت کر رہا تھا کہ میں تم سے مال میں زیادہ اور جمعیت میں قوی ہوں اور وہ اپنے باغ میں آیا اور وہ اپنی جان پر آفت لا رہا تھا اور وہ بولا میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوسکے گا اور میں قیامت کے ہونے کا بھی گمان نہیں رکھتا اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف جانا ہی ہوا تو اس سے بہتر ٹھکانا پاؤں گا۔ اس کے ساتھی نے جواب میں کہا کیا تم نے اس خدا کی ناشکری کی جس نے تم کو مٹی سے بنایا، پھر پانی کی ایک بوند سے، پھر ایک مرد بنا کر کھڑا کیا لیکن میرا رب تو وہی اللہ ہے، میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بناؤں گا۔
Top