Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے اور غافلوں میں سے نہ بنو
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۔ خدا کو یاد کرنے کا طریقہ : اوپر خدا کی پناہ میں آنے کا طریقہ خدا کو یاد کرنا بتایا ہے۔ اب خدا کو یاد کرنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے تین باتیں ارشاد ہوئیں۔ ایک یہ کہ فروتنی، مسکنت، لجاجت اور خوف کے ساتھ دل دل میں ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ناز، تذلل اور اسحساس استحقاق و استکبار اس کے منافی ہے۔ دوسری یہ کہ اگر قول سے ذکر ہو تو دون الجہر ہو یعنی بہت زیادہ بلند آواز سے نہ ہو۔ اس بات کی وضاحت سورة بنی اسرائیل میں یوں ہوئی ہے۔ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بہا وابتغ بین ذلک سبیلا۔ (بنی اسرائیل :11) (اپنی دعا نہ بہت بلند آواز سے کرو، نہ بہت پست آواز سے، ان کے درمیان کی راہ اختیار کرو) یہ ہدایت مشرکین کے طریقہ سے بچانے کے لیے بھی ہوئی اور اس لیے بھی کہ ہمارا پروردگار سمیع وعلیم ہے، نعوذ باللہ بہرا نہیں ہے۔ یاد ہوگا کہ ایک موقع پر نبی ﷺ نے بھی زیادہ بلند آواز سے ذکر کرنے سے صحابہ ؓ کو روک دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں ریا، شہرت اور نمائش کا بھی زیادہ امکان ہے جو اخلاص کے بالکل منافی چیزیں ہیں۔ تیسری یہ کہ اللہ کی یاد ہر وقت رہنی چاہیے۔ بالغدو والاصال کے الفاظ، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم صبح و شام کے الفاظ بولتے ہیں اسی عربی میں یہ الفاظ ہیں۔ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ اسی مفہوم کی تاکید کے لیے ہے۔ یعنی خدا کی یاد سے کسی وقت بھی غفلت نہ ہو۔ جس طرح جسم کی زندگی کے لیے سانس کی آمد و شد ضروری ہے۔ اسی طرح روح کی زندگی کے لیے ذکر الٰہی ضروری ہے۔ شیطان ہر وقت حملہ کی گھات میں رہتا ہے، کسی وقت بھی اس کام سے غافل نہیں ہوتا اس وجہ سے اس سے پناہ حاصل کرنے کے لیے جو حرز ہے آدمی کو اس سے بھی کسی وقت غفلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس ذکر کی شکلیں اور صورتیں حالات، ضروریات مقضیات اور اوقات کی تبیل سے بدل بدل جاتی ہیں لیکن اس سے غفلت کسی وقت بھی جائز نہیں۔ انسان جہاں غافل ہوا شیطان کسی نہ کسی راہ سے حملہ آور ہوجائے گا۔ اس امر کی یاد دہانی کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ خطاب اگرچہ بصیغہ واحد ہے لیکن اس کی نوعیت وہی ہے جو اوپر آیت 199 کے تحت بیان ہوچکی ہے۔
Top