Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 69
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَكُلُوْا : پس کھاؤ مِمَّا : اس سے جو غَنِمْتُمْ : تمہیں غنیمت میں ملا حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا اس کو حلال و طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ مال غنیمت کے حلال ہونے کی یقین دہانی : اب یہ مسلمانوں کی طرف رخ کر کے انہیں اطمینان دلایا کہ تم ان لوگوں کی ان ہفوات کی مطلق پروا نہ کرو، جو مال غنیمت یا فدیہ تمہیں حاصل ہوا ہے اسے کھاؤ برتو، وہ تمہارے لیے حلال طیب ہے، چونکہ یہ بات بعینہ اسی بات کا ایک حصہ ہے جو اوپر والی آیات میں مسلمانوں کے دفاع میں کہی گئی ہے اس وجہ سے ‘’ کے واسطہ سے اسی پر عطف کردی گئی ہے۔ بس اتنا فرق ہوا ہے کہ اوپر کی بات قریش کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے اس لیے کہ وہ انہی سے کہنے کی تھی اور اس دوسری بات کا رخ مسلمانوں کی طرف ہوگیا ہے اس لیے کہ یہ انہی کو جتانے کی تھی۔ خطاب میں اس طرح کی جو لطیف تبدیلیاں ہوتی ہیں اس کی متعدد مثالیں خود اس سورة میں بھی گزر چکی ہیں۔ ایک نہایت عمدہ مثال سورة یوسف میں موجود ہے۔“ یوسف اعرض عن ھذا واستغفری لذنبک انک کنت من الخاطئین : یوسف، تم اس سے اعراض کرو، اور تو اپنے گناہ کی مغفرت چاہ بیشک تو ہی خطا کاروں میں سے ہے ”(یوسف :29)۔ دیکھیے، ایک ہی سانس میں عزیز مصر نے حضرت یوسف کو بھی خطاب کیا ہے اور اپنی بیوی کو بھی اور رخ کی تبدیلی اور بات کی نوعیت سے خطاب کا فرق بغیر کسی التباس کے نمایاں ہوگیا۔۔ یہاں مسلمانوں کو مال غنیمت کے حلال و طیب ہونے سے متعلق جو اطمینان دلایا گیا وہ درحقیقت قریش کے جواب میں ہے۔ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ واقعہ بدر کے بعد قریش نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ مسلمان مدعی بن کر تو اٹھے ہیں دینداری کے لیکن ان کے کام بالکل دنیا داروں کے ہیں۔ بھلا دین داروں کے یہی کام ہوتے ہیں کہ ملک میں خونریزی کریں، مال غنیمت لوٹیں، فدیہ وصول کریں اور اس کو مزے سے کھائیں ؟ یہ تو وہی شیوہ ہے جو ہمیشہ سے دنیاداروں کا شیوہ ہے۔ قرآن نے یہ بتایا کہ تم ان مفتیوں کے فتوے کی ذرا پروا نہ کرو۔ ان کے نزدیک تو تم بہر شکل گنہگار ہو۔ اگر تم اس جنگ میں ہار جاتے تو تمہارا ہار جانا ان کے نزدیک تمہارے باطل ہونے کی دلیل بنتا اب جب کہ جیت گئے ہو تو تمہارا قیدی پکڑنا، مال غنیمت پانا اور فدیہ وصول کرنا اور اس کو کھانا ان کے نزدیک تمہارے باطل پر ہونے کی دلیل ہے۔ ان لوگوں سے عہدہ برآ ہونے کی شکل بس یہ ہے کہ ان کی پروا نہ کرو اور اللہ نے جو فتوح تمہیں بخشی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ، یہ تمہارے لیے حلال طیب ہیں۔ یہ امر یہاں ذہن میں رکھیے کہ اس زمانے میں عام طور پر مذہب کے رہبانی تصور کا غلب ہ تھا اس وجہ سے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے نیک دل لوگ قریش کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوجائیں جس کا اثر مسلمانوں کے اس ولولہ جہاد پر پڑے جس کی اس سورة میں دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن نے ان کی تردید کر کے اس امکان کا سدباب کردیا۔ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز جائز اور طیب ہے اس کو تو کھاؤ برتو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو کہ کسی ایسی چیز میں آلودہ نہ ہوجاؤ جس سے خدا نے منع فرمایا ہے۔ اگر حدود الٰہی کے تجاوز سے بچتے رہے تو وہ تمہاری چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں پر گرفت نہیں فرمائے گا، وہ غفور رحیم ہے۔
Top