بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
ا۔ل۔م۔ر، یہ کتاب الہٰی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے)اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔1
سورة الرَّعْد 1 یہ اس سورة کی تمہید ہے جس میں مقصود کلام کو چند لفظوں میں بیان کردیا گیا ہے۔ روئے سخن نبی ﷺ کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ ، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ اسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہوجاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں ان کا رویہ کس قدر غلط ہے۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی ﷺ اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے، انہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طرقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے۔
Top