Tafheem-ul-Quran - Ar-Ra'd : 7
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠   ۧ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْلَآ اُنْزِلَ : کیوں نہ اتری عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تم مُنْذِرٌ : ڈرانے والے وَّلِكُلّ قَوْمٍ : اور ہر قوم کے لیے هَادٍ : ہادی
یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ”اِس شخص پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟“15۔۔۔۔ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔16
سورة الرَّعْد 15 نشانی سے ان کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ان کو یقین آجائے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ وہ آپ ﷺ کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ آپ ﷺ کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپ ﷺ کی تعلیم کے اثر سے آپ ﷺ کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا۔ وہ ان معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہام جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیے جا رہے تھے۔ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد ﷺ کی رسالت کو جانچ سکیں۔ سورة الرَّعْد 16 یہ ان کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہ راست ان کو دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو خطاب کر کے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ﷺ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کردینا نہیں ہے۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور ان کو غلط روی کے برے انجام سے خبردار کرو۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں، ہر قوم میں، ایک نا ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالیٰ ان کے مطالبے کی طرف سے رخ پھیر لیتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔
Top