Tafseer-e-Madani - An-Noor : 7
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠   ۧ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْلَآ اُنْزِلَ : کیوں نہ اتری عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تم مُنْذِرٌ : ڈرانے والے وَّلِكُلّ قَوْمٍ : اور ہر قوم کے لیے هَادٍ : ہادی
اور کہتے ہیں وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں، اپنے کفر (و باطل) پر، کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس شخص پر کوئی نشانی (یعنی ان کی فرمائش کے مطابق) ، سوائے اس کے نہیں کہ آپ کا کام تو خبردار کردینا ہے، اور بس، اور (آپ کوئی انوکھے نبی نہیں ہیں بلکہ) ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہوتا چلا آیا ہے،3
23۔ منکرین کی طرف سے نشانی کا مطالبہ اور اس کا جواب : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتاری گئی ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے۔ یعنی اس طرح کے معجزات آپ کو کیوں نہیں دئے گئے جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئے گئے تھے۔ یا یہ کہ ہماری فرمائش کے مطابق صفا کی پہاڑی کو سونے کا بنادیا جائے اور مکہ مکرمہ کی پہاڑیوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کریہاں پر سرسبز و شاداب باغات کا سلسلہ قائم کردیا جائے وغیرہ وغیرہ (جامع البیان، صفوۃ التفاسیر اور مراغی وغیرہ وغیرہ) سو یہ ان لوگوں کے عناد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے ورنہ پیغمبر کو اتنے اور ایسے ایسے معجزات دیئے گئے ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک کا مصداق ہیں اور ان میں سب سے بڑا اور سب سے واضح معجزہ قرآن حکیم کا یہ معجزہ خالدہ ہے جو کہ معجزہ کا معجزہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے۔ مگر عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس پیغمبر پر کوئی نشانی یعنی ان کی فرمائش کے مطابق۔ سو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام تو اے پیغمبر معجزے اور نشانیاں دکھانا نہیں بلکہ انذار وتبشیر اور تبلیغ حق ہے اور بس۔ اس کے بعد آپ کا ذمہ فارغ۔ ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب۔ 24۔ پیغمبر کا کام انذار وتبشیر اور بس : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام معجزے دکھانا نہیں بلکہ آپ کا کام تو صرف خبردار کردینا ہے اور بس۔ پس اس طرح کے فرمائشی معجزات کو پورا کرنا نہ آپ ﷺ کے بس میں ہے اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی اس طرح کا کوئی دعوی ہی کیا ہے۔ پس ان لوگوں کا اس طرح کی فرمائشین کرنا بجائے خود ان کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کا ثبوت ہے۔ رہ گئی آپ کی تصدیق کے لیے مطلق معجزات کی بات تو وہ آپ کو بیشمار دئے گئے ہیں۔ حسی معجزات بھی اور قرآن حکیم کا وہ عظیم الشان اور بےمثال علمی اور معنوی معجزہ بھی جو کہ سب سے بڑھ کر بھی ہے اور وہ بذات خود بیشمار معجزات کا مجموعہ بھی۔ اور جس نے اپنی اسی آب وتاب کے ساتھ قیامت تک باقی اور قائم رہنا ہے۔ مگر ان لوگوں کی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے جب یہ سب کچھ بھی ان کے لئے کافی نہ ہوا تو پھر ان کا کوئی فرمائشی معجزہ ان کے لیے کیونکر کافی ہوسکتا ہے ؟ پس یہ محض ان کی ضد بازی اور ہٹ دھرمی ہے۔ سو اس سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ضد اور ہٹ دھرمی انسان کے لیے محرومی کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور نورحق سے سرفرازی و بہرہ وری کے لیے سب سے اہم اولین اور بنیادی شرط ہے طلب صادق اور صدق نیت اور دوسری حقیقت یہاں اس سے یہ واضح ہوگئی کہ پیغمبر کا منصب ومقام دراصل انذاروتبشیر ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کے ہولناک انجام سے خبردار کیا جائے اور ماننے والوں کو ان کی حقیقی سعادت اور ابدی فوز و فلاح کی خوشخبری سنا دی جائے اور بس۔ معاندین کے فرمائشی معجزوں کی تعمیل نہ پیغمبر کے ذمے ہوتی ہے اور نہ ان کے اختیار میں۔ پس پیغمبر کا اصل کام اور حقیقی ذمہ داری دعوت حق ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر حق کو منوا لینا اور لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا ان کی ذمہ داری نہیں۔ یہ حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کا کام اور اسی کی شان ہے کہ وہی جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے ؟ کون کس لائق ہے اور کون نورہدایت سے مشرف ہونے کا اہل ہے اور کون نہیں ؟ کس کے اندرطلب صادق پائی جاتی ہے اور کس کے اندر نہیں ؟ اسی کے مطابق وہ بندوں کو نوازتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (لیس علیک ھداہم ولکن اللہ یھدی من یشآئ) ۔ (البقرۃ : 272) یعنی ان کی ہدایت آپ کے ذمے نہیں بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ 25۔ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوا ہے : جس نے ان کو راہ حق کی دعوت دی اور پیغام حق پہنچایا۔ اور ہر نبی کو وہی معجزہ دیا گیا جو اس زمانے کے مناسب تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے زمانے کے مناسب اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے زمانے کے مطابق۔ اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو قیامت تک رہنا ہے تو آپ کو قرآن حکیم کا وہ عظیم الشان علمی اور معنوی زندہ جاوید معجزہ عطا فرمایا گیا جو قیامت تک باقی رہے گا۔ اور رہ حق و ہدایت کو روشن کرتا ایک دنیا جہاں کو حق کا قائل اور اپنا گرویدہ بناتا رہے گا۔ بہرکیف اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب دینے سے پہلے اس کو انذار اور تنبیہ فرماتا ہے۔ سو اسی کے مطابق اب آپ کو اے پیغمبر ہادی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اب اگر ان لوگوں نے آپ کی ہدایت و راہنمائی کو قبول نہ کیا تو اب ان کے لیے اس کے بعد عذاب الہی کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو پیغمبر کا کام ہدایت دینا اور رہنمائی کرنا ہوتا ہے نہ کہ عذاب دینا اور معجزے دکھانا۔
Top