Aasan Quran - Al-Anbiyaa : 51
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
ان بیویوں میں سے تم جس کی باری چاہو ملتوی کردو، اور جس کو چاہو، اپنے پاس رکھو، اور جن کو تم نے الگ کردیا ہو ان میں سے اگر کسی کو واپس بلانا چاہو تو اس میں بھی تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں ہے۔ (41) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی، اور انہیں رنج نہیں ہوگا اور تم انہیں جو کچھ دے دو گے اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں گی۔ (42) اور اللہ ان سب باتوں کو جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں اور اللہ علم اور حلم کا مالک ہے۔
41: عام مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ اگر ان کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو وہ ہر معاملے میں ان کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، چنانچہ جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاریں اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے ساتھ گزارنا فرض ہے، لیکن اس آیت میں آنحضرت ﷺ کے لئے باریاں مقرر کرنے کی یہ پابندی اٹھالی گئی ہے، چنانچہ آپ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کی باری ملتوی فرماسکتے ہیں، لیکن یہ بھی وہ سہولت ہے جس سے آنحضرت ﷺ نے زندگی بھر فائدہ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ تمام ازواج مطہرات سے مکمل برابری کا معاملہ فرمایا۔ 42: مطلب یہ ہے کہ جب ازواج مطہرات پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر برابری کا معاملہ کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں فرمائی، تو آپ کی طرف سے ان کے ساتھ جتنا بھی حسن سلوک ہوگا، وہ اسے اپنے استحقاق سے زیادہ سمجھ کر خوش ہوں گی۔
Top