Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 13
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
فَرَدَدْنٰهُ : تو ہم نے لوٹا دیا اس کو اِلٰٓى اُمِّهٖ : اس کی ماں کی طرف كَيْ تَقَرَّ : تاکہ ٹھنڈی رہے عَيْنُهَا : اس کی آنکھ وَلَا تَحْزَنَ : اور وہ غمگین نہ ہو وَلِتَعْلَمَ : اور تاکہ جان لے اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے بیشتر لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے
اس طرح ہم موسیٰؑ کو16 اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا،17 مگر اکثر لوگ اس بات  کو نہیں جانتے۔ “
سورة القصص 16 بائیبل اور تلمود سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نام " موسیٰ " فرعون کے گھر میں رکھا گیا تھا۔ یہ عبرانی زبان کا نہیں بلکہ قبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں " میں نے اسے پانی سے نکالا " قدیم مصری زبان سے بھی حضرت موسیٰ کے نام کی یہ تخریج صحیح ثابت ہوتی ہے۔ اس زبان میں " مو " پانی کو کہتے تھے اور " اوشے " کا مطلب تھا " بچایا ہوا "۔ سورة القصص 17 اور اللہ کی اس حکیمانہ تدبیر کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسیٰ فی الواقع فرعون کے شاہزادے نہ بن سکے بلکہ اپنے ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں میں پرورش پاکر انہیں اپنی اصلیت اچھی طرح معلوم ہوگئی۔ اپنی خاندانی روایات سے اپنے آبائی مذہب سے، اور اپنی قوم سے ان کا رشتہ نہ کٹ سکا، وہ آل فرعون کے ایک فرد بننے کے بجائے اپنے دلی جذبات اور خیالات کے اعتبار سے پوری طرح بنی اسرائیل کے ایک فرد بن کر اٹھے۔ نبی ﷺ ایک حدیث میں فرماتے ہیں مثل الذی یعمل و یحتسب فی صنعتہ الخیر کمثل ام موسیٰ ترضع ولدھا و تاخذ اجرھا۔ " جو شخص اپنی روزی کمانے کے لیے کام کرے اور اس کام میں اللہ کی خوشنودی پیش نظر رکھے اس کی مثال حضرت موسیٰ کی والدہ کی سی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے کو دودھ پلایا اور اس کی اجرت بھی پائی "۔ یعنی ایسا شخص اگرچہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرتا ہے لیکن چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پیش نظر رکھ کر ایمانداری سے کام کرتا ہے، جس کے ساتھ بھی معاملہ کرتا ہے اس کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے، اور رزق حلال سے اپنے نفس اور اپنے بال بچوں کی پرورش اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی روزی کمانے پر بھی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ گویا روزی بھی کمائی اور اللہ سے اجر وثواب بھی پایا۔
Top