Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو104 اور حد سے تجاوز نہ کرو، 105اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں
سورة الْمَآىِٕدَة 104 اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانون الہٰی کے بجائے قانون نفس کے پیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں، بودھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوفین کی طرح رہبانیت اور قطع لذات کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دنیوی لذتوں سے محروم کرنا، اور دنیا کے سامان زیست سے تعلق توڑنا، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی۔ چناچہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے، راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ ”مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی۔ مجھے دیکھو، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے“۔ پھر فرمایا ”یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دنیا کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے ؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے۔ ضبط نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، حج وعمرہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپر سختی کی، اور جب انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں“۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی ﷺ نے سنا کہ وہ ایک مدت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ ﷺ نے بلا کر ان کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جاؤ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر ؓ نے مشہور تابعی بزرگ، کعب ؓ بن سور الاَزْدِی کو ان کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا، اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 105 ”حد سے تجاوز کرنا“ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھیرائی ہوئی پاک چیزوں سے اس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حدود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں ناپسند ہیں۔
Top