Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 132
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا١ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہنے لگے مَهْمَا : جو کچھ تَاْتِنَا بِهٖ : ہم پر تو لائے گا مِنْ اٰيَةٍ : کیسی بھی نشانی لِّتَسْحَرَنَا : کہ ہم پر جادو کرے بِهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں نَحْنُ : ہم لَكَ : تجھ پر بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے نہیں
انہوں نے موسیٰ سے کہا”تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔“94
سورة الْاَعْرَاف 94 یہ انتہائی ہٹ دھرمی و سخن پروری تھی کہ فرعون کے اہل دربار اس چیز کو بھی جادو قرار دے رہے تھے جس کے متعلق وہ خود بھی بالیقین جانتے تھے کہ وہ جادو کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ شاید کوئی بیوقوف آدمی بھی یہ باور نہ کرے گا کہ ایک پورے ملک میں قحط پڑجانا اور زمین کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہونا کسی جادو کا کرشمہ ہوسکتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید کہتا ہے کہ فَلَمَّا جَآءَ تْھُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَا لُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ وَّجَحَدُوا بِھَا واستَیْقَنَتھَٓا اَنفُسُھُمْ ظُلْمًاوَّ عُلُوًّا (النمل۔ آیات 13۔ 14) یعنی ”جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، حالانکہ ان کے دل اندر سے قائل ہوچکے تھے، مگر انہوں نے محض ظلم اور سرکشی کی راہ سے ان کا انکار کیا۔“
Top