Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 132
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا١ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہنے لگے مَهْمَا : جو کچھ تَاْتِنَا بِهٖ : ہم پر تو لائے گا مِنْ اٰيَةٍ : کیسی بھی نشانی لِّتَسْحَرَنَا : کہ ہم پر جادو کرے بِهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں نَحْنُ : ہم لَكَ : تجھ پر بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے نہیں
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم کیسا ہی نشان ہمارے سامنے لاؤ جس سے ہم کو مسحور کرنا چاہو ہم تو تم پر ایمان لانے کے نہیں،170 ۔
170 ۔ جب حق کے مقابلہ میں ضد وعناد حد سے بڑھ جاتا ہے اور انسان ہر صورت میں مخالفت ہی کی ٹھان لیتا ہے تو اس مسخ شدہد ذہنیت میں مبتلا ہو کر ہر سیدھی سی سیدھی بات اور صاف سی صاف دلیل سے اسی طرح انکار کرسکتا ہے۔ بجنسہ یہی ذہنیت جاہلین عرب کی دین محمد ﷺ کے عناد میں رہی اور جاہلین فرنگ کی آج تک چلی آرہی ہے۔ سیرت نبوی ﷺ کے روشن سے روشن اور پاکیزہ سے پاکیزہ واقعات کو اس طرح توڑ مروڑ کر کے پیش کرنا۔ الٹے سے الٹے نتیجہ نکالنا یہ خاص الخاص جو ہر آج کے ” روشن خیال محققین فرنگ “ کے ہیں۔ مھما اصل ما مکرر سے مرکب ہے۔ پہلا ما شرطیہ اور دوسرا ما تاکید کے لیے ہے پھر تکرار کے ثقل سے بچنے کے لئے پہلے ما کا الف ہ سے بدل دیا گیا ہے۔ اصلھا ما الشرطیہ ضمت الیھا ما المزیدۃ للتاکید ثم قلبت الفھا ھاء استثقالا للتکریر (بیضاوی) خلیل نحوی اور نحوئین بصرہ کی تحقیق یہی ہے۔ ھذا قول الخلیل والبصریین (کبیر)
Top