Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
ثُمَّ : پھر بَدَّلْنَا : ہم نے بدلی مَكَانَ : جگہ السَّيِّئَةِ : برائی الْحَسَنَةَ : بھلائی حَتّٰي : یہاں تک کہ عَفَوْا : وہ بڑھ گئے وَّقَالُوْا : اور کہنے لگے قَدْ مَسَّ : پہنچ چکے اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا الضَّرَّآءُ : تکلیف وَالسَّرَّآءُ : اور خوشی فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : بیخبر تھے
پھر ہم نے اُن کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خُوب پھلے پھُولے اور کہنے لگے کہ ”ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔“آخرِ کار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑ لیا اور اُنہیں خبر تک نہ ہوئی۔77
سورة الْاَعْرَاف 77 ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تاکہ اس کا دل نرم پڑے، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرور طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہوجائے، اسے محسوس ہو کہ اوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی ﷺ نے اس حدیث میں کھینچا ہے لایزال البلا بالمؤمن حتٰی یخرج نقیاً من ذنوبہٖ ، والمنافقُ مَثَلہ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہ اھلہ ولا فیمَ ارسلوہ۔ یعنی ”مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔“ پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکرگزار ہوتی ہے، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بربادی اس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کب اس کا وضع حمل ہوجائے۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی ﷺ کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرز عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، ٹھیک وہی طرز عمل سورة اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حدیث میں عبداللہ بن مسعود ؓ عبداللہ بن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور ﷺ نے دعا کی کہ خدایا، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے، چمڑے اور ہڈیاں اور اون تک کھا گئے۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے، جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا، حضور ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ برا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرار قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کردیا کہ میاں، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمد ﷺ کے پھندے میں نہ پھنس جانا۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورة اعراف نازل ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ان کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس، آیت 21۔ النحل 112۔ المومنون 5۔ 76۔ الدخان 9۔ 16
Top