Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 7
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِنَ : سے النَّبِيّٖنَ : نبیوں مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد وَمِنْكَ : اور تم سے وَمِنْ نُّوْحٍ : اور نوح سے وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم وَمُوْسٰى : اور موسیٰ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ : اور مریم کے بیٹے عیسیٰ وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے اور عہد بھی ان سے پکا لیا
آیت واذ اخذنا من النبین میثاقھم یعنی انبیاء کو جو ذمہ داریاں دی گئیں ان کو پورا کرنے کا وعدہ لیا گیا، یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کو بشارت دیں گے اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے یعنی وہ مسطور تھا جب اللہ تعالیٰ نے کہا جو کچھ ہونے والا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے پختہ وعدہ لیا۔ تقدیر کلام یہ ہوگی : کان مسطورا حین کتاب اللہ ما ھو کائن حین اخذ اللہ تعالیٰ المواثیق من الانبیاء، ومنک ضمیر سے مراد حضور ﷺ کی ذات ہے۔ آیت ومن نوح و ابراہیم وموسی و عیسیٰ ابن مریم ان پانچ انبیاء ورسل کو خاص کیا اگرچہ یہ انبیاء کے زمرہ میں داخل تھے۔ یہ الو العزم رسولوں اور امتوں کے ائمہ میں سے تھے۔ یہ احتمال بھی موجود ہے یہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیاں ولایت کو ختم کرنے کی تعظیم کے لیے ہو یعنی یہ ایسی بات ہے جس میں انبیاء کی شریعتوں میں کوئی اختلاف نہیں یعنی اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت کی وجہ سے باہمی وراثت جاری تھی اور ہجرت دیانت میں قوی سبب تھا۔ پھر ایمان کے ہوتے ہوئے قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے وہ باہم وارث بنے یہ بھی بڑا مضبوط سبب ہے جہاں تک مومن اور کافر کے درمیان وراثت کا تعلق ہے تو یہ ان انبیاء میں سے کسی نبی کے دین میں نہیں جن سے پختہ وعدہ لیا گیا، اس لیے تم ان میں کمزوری نہ دکھائو اور کفار سے دوستی نہ اپنائو۔ اس کے نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : آیت شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابرہیم وموسی و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا (الشوری : 13) دین میں تفرق کو ترک کرنا اس کی ایک صورت کفار سے دوستی کو ترک کرنا بھی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : نبی مومنوں کی ذاتوں پر ان پر زیادہ حق رکھتا ہے یہ کتاب میں لکھا ہو اتھا اور انبیاء سے اس کا پختہ وعدہ بھی لیا گیا تھا۔ آیت واخذنا منھم میثاقا غلیظا یعنی ہم نے ان سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور یہ ذمہ داری اٹھائی کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے۔ میثاق سے مراد اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھانا ہے۔ دوسرامیثاق یہ اللہ کے نام کی قسم کے ساتھ پہلے میثاق کی تائید ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : پہلا میثاق یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی اقرار ہے اور دوسرا میثاق نبوت کے متعلق ہے اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : آیت واذاخذاللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوء منن بہ ولتنصرنہ قالء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری (آل عمران : 81) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان سے پختہ وعدہ لیا کہ وہ اعلان کریں گے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت محمد ﷺ یہ اعلان کریں گے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت محمد ﷺ کا پہلے ذکر کیا کیونکہ حضرت قتادہ نے حضرت حسن بصری سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا گیا : آیت واذاخذنا من النبیین میثاقھم ومنک ومن نوح فرمایا : ” میں پیدائش میں ان سے اول ہوں اور بعثت میں سب سے آخری ہوں “ (1) ۔ مجاہد نے کہا : یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت میں ہوا (2) ۔
Top