Tafseer-al-Kitaab - Al-Ankaboot : 50
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : نازل کی گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتٌ : نشانیاں مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اس کے رب سے قُلْ : آپ فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَاِنَّمَآ اَنَا : اور اس کے سوا نہیں کہ میں نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : صاف صاف
اور کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہ نازل کی گئیں۔ کہہ دو نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں جو ہوں تو کھول کر ڈر سنانے والا ہوں۔
وقالوا لولا انزل علیہ اٰیت من ربہ جب آنحضرت ﷺ کی نبوت دلائل سے ثابت کی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ جس طرح پہلے نبیوں پر کتاب نازل کی گئی تھی، اس طرح آپ پر بھی اللہ نے نازل کی ہے، اس پر کفار قریش نے ازخود یا بعض اہل کتاب کے سکھانے سے یہ شبہ کیا کہ اس کو یعنی محمد ﷺ کو وہ معجزات کیوں نہ دیئے گئے تھے۔ نافع و ابن عامر اور بصریوں و حفص کی قرأت میں آیات جمع کا لفظ ہے اور یہی راجح ہے، اس کے جواب میں فرماتا ہے۔ قل انما الایت عنداللہ وانما انا نذیر مبین کہہ معجزات تو اللہ کے اختیار میں ہیں، جب چاہے منکروں کے الزام کے واسطے ظاہر کرے اور میں رسول ہوں، رسول کے لیے مخالفین کی خواہش کے موافق معجزات کا دیا جانا کوئی شرط رسالت نہیں، رسول کے بھیجنے سے غرض لوگوں کا تنبیہ کردینا ہے۔ سو میں کھلم کھلا تم کو متنبہ کرنے والا ہوں۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے بھی یہودیوں نے صلیب پر چڑھاتے وقت معجزات طلب کئے، مگر جب دیکھا گیا کہ نہ مانیں گے نہ دکھائے گئے اور اگر تم کو کوئی معجزہ تصدیق کے لیے درکار ہو تو قرآن سے زیادہ اور کون سا معجزہ ہے، جو تم کو سنایا جاتا ہے، کیونکہ امی شخص سے ایسی کتاب کا ظاہر ہونا کہ جس کی دس آیتوں کے برابر بھی کسی سے نہیں بن سکتیں بڑا معجزہ ہے اور نیز قرآن صرف معجزہ ہی نہیں بلکہ نصیحت اور رحمت ہے ایمانداروں کے لیے۔ فقال او لم یکفہم الی قولہ یؤمنون دوسری دلیل نبوت کی اللہ کی شہادت ہے جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں سے واقف ہے، اس کی شہادت بس ہے۔ فقال قل کفی باللہ الخ پس جو غلط باتوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور اللہ کے منکر ہیں وہ نہیں مانتے نہ مانیں وہ خسارہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ والذین آمنوا بالباطل الخ اس پر بھی کفار کو بس نہ تھی کہتے تھے کہ جب عذاب کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر سچا ہے تو ابھی اس کو لا ویستعجلونک بالعذاب فرماتا ہے، اس کے لیے ایک خاص وقت مصلحتِ الٰہیہ کی وجہ سے مقرر نہ ہوا ہوتا تو ابھی آتا اور وہاں وہ یکایک ان پر آوے گا۔ بدر کا واقعہ اور ایک قحط عظیم چناچہ آیا، پھر تعجب کے طور پر اسی کلمہ کا اعادہ کرتا ہے۔ ویستعجلونک بالعذاب کہ کیا جلدی کرتے ہو ؟ جہنم کے گھیرے میں تو پڑے ہوئے ہو،
Top