Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ کا پیغام پہنچانے 112 کا حق ادا نہ کیا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ 113 رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا
112 تمام رسولوں کی چار اہم ذمہ داریوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ اور آپ نے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دی ہے۔ کفار کی ایذا رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑوے کسیلے جواب سننے کے باوجود آپ نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں صحابہ کرام ؓ کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ نے بآواز بلند فرمایا یا اللہ گواہ رہنا ۔ نیز آپ نے صحابہ کرام ؓ کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ 1۔ تبلیغ رسالت کا فریضہ :۔ سیدنا ؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ نے فرمایا۔ تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ) ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔ آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا اے اللہ ! گواہ رہنا۔ (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی ) 2۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ سن لو ! تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو (اس خطبہ کے ارشادات) پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) کیونکہ حاضر شاید ایسے غیر موجود شخص کو خبر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامع ) 3۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ نماز کسوف کے بعد) آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انہیں نہ کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔ (خطبہ ختم کرنے کے بعد) آپ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! میں نے یقینا تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (مسلم۔ کتاب الکسوف پہلی حدیث) ہوا یہ تھا کہ جس دن رسول اللہ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اسی دن سورج کو بھی اتفاق سے گہن لگ گیا۔ قدیم عرب کا اعتقاد تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگا کرتا ہے۔ اس واقعہ پر کچھ مسلمان بھی یہ کہنے لگے کہ سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہنا گیا اور یہ دن 29 شوال 10 ھ روز دو شنبہ بمطابق 27 جنوری 632 ء کا دن تھا۔ جب سورج کو گہن لگنا شروع ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کو دو رکعت طویل نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ اور صحابہ کو حکم دیا کہ جب سورج کو گرہن یا چاند گرہن لگے تو نماز پڑھا کرو۔ نماز کے بعد آپ نے طویل خطبہ دیا جس میں اس جاہلی عقیدہ کا بھرپور رد کیا کہ سورج اور چاند تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت یا زندگی سے انہیں گرہن نہیں لگا کرتا۔ طویل خطبہ کے بعد آپ نے صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ آیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (بخاری۔ ابو اب الکسوف، مسلم۔ کتاب الکسوف) 4۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ آپ نے اپنی مرض الموت میں اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، اس وقت آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی (اس حال میں) آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے اے اللہ ! یقینا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (مسلم کتاب الصلٰوۃ۔ باب نہی عن قراءۃ القرآن فی الرکوع والسجود ) اور تبلیغ کے لیے آپ جس بات کو زیادہ تر ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے : 5۔ وعظ کے آداب :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے آپ اس کو برا سمجھتے کہ ہم اکتا جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا ) 6۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا۔ ابو عبدالرحمن ! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں۔ انہوں نے کہا یہ میں اس لیے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اور میں وقت اور موقع دیکھ کر تمہیں وعظ سناتا ہوں جیسے رسول اللہ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت فرماتے تھے آپ کو یہی ڈر تھا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم، بالموعظہ والعلم کی لاینفروا) مردوں کے علاوہ آپ عورتوں کے لئے کبھی کبھی بالخصوص الگ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : 7۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ (عیدالفطر کا خطبہ دے کر) مردوں کی صف سے نکلے اور آپ کے ساتھ بلال ؓ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی۔ پھر آپ نے عورتوں کو نصیحت کی اور انہیں خیرات کرنے کا حکم دیا۔ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی، کوئی انگوٹھی اور بلال ؓ نے اپنے کپڑے کے کونے میں یہ (صدقہ) لینا شروع کیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن ) 8۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عورتوں نے آپ سے عرض کیا کہ مرد آپ کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے۔ لہذا آپ خود ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجئے۔ چناچہ آپ نے ان سے وعدہ فرما لیا۔ اس دن آپ نے انہیں وعظ فرمایا اور انہیں احکام شرع بتائے اور احکام میں سے ایک یہ بھی تھا جس عورت کے تین چھوٹے بچے فوت ہوجائیں (اور وہ صبر کرے) تو وہ ان کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے کسی عورت نے کہا اور اگر دو ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا اور دو بھی ( بخاری۔ کتاب العلم۔ ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم ) 113 نبی اور رسول میں فرق :۔ علماء نے ایک نبی اور ایک رسول میں جو فرق بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں : (1) آنے والے رسول کی بشارت پہلے ہی کتاب اللہ میں دے دی جاتی ہے جبکہ نبی کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہوتی۔ (2) رسول پر اللہ کی کتاب یا صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ الگ سے اپنی امت تشکیل دیتا ہے جبکہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا اور کرواتا ہے۔ (3) رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے جبکہ انبیاء ناحق بھی سرکش کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اور رسول اللہ چونکہ تمام دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں۔ لہذا دوسروں کی نسبت آپ کی یہ ذمہ داری بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے بطور خاص اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کو اطمینان دلایا۔ یہ آیت جنگ احد میں آپ کے زخمی ہونے کے بہت بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے بعض دفعہ ایسے ہنگامی حالات پیش آجاتے تھے کہ آپ پہرہ کے بغیر رات کو سو بھی نہ سکتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے پھر کبھی پہرہ نہیں بٹھایا۔ تبلیغ رسالت کی وجہ سے آپ کو اپنی جان کا کس قدر خطرہ تھا ؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ پر قریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔ ان حملوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے : آپ کا زمانہ نبوت 23 سال ہے۔ ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال کے عرصہ میں آپ پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ کو قتل کردینے کی سازشیں تیار ہوئیں۔ ان میں سے 9 حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اور غالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع کر کے یا مدد کر کے آپ کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اب ہم ان قاتلانہ حملوں کے واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ مختصراً ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ 1۔ آپ کی جان بچانے والے کی شہادت : کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀) 15 ۔ الحجر :94) نازل ہوئی تو آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چناچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر پل پڑے۔ آپ کے ربیب (سیدہ خدیجہ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ بحوالہ سیرت النبی ج 1 ص 314) 2۔ ابو جہل کا ارادہ قتل : ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیارو مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ اس کے ساتھیوں نے کہا واللہ ! تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چناچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا ابو الحکم ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ کہنے لگا میں محمد ﷺ کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے۔ وہ اونٹ مجھے کھا جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔ (ابن ہشام 1 : 298-299 بحوالہ الرحیق المختوم ص 151) 3۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل : عقبہ ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ کا گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے۔ اور ایسا موقع مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے۔ چناچہ سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے جو رسول اللہ کو سب سے سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی ؟ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ کا گلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر نکل آئیں اور قریب تھا کہ آپ کا کام تمام ہوجاتا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ آن پہنچے۔ انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ کو چھڑایا اور فرمایا کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے ؟ (40: 28) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکر بعدالنبی کتاب التفسیر سورة مومن) اور سیدہ اسماء کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ کی چیخ نکل گئی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ آپ کی یہ چیخ سن کر ہی سیدنا ابوبکر صدیق ؓ آپ کی مدد کے لیے آئے تھے اور جب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر سیرۃ الرسول ص 13 بحوالہ الرحیق المختوم 8 ص 153) 4۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا عمر ! آج کیا ارادے ہیں ؟ کہنے لگے تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں نعیم کہنے لگے پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور خباب بن الارت ص انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بےتحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں عمر ! تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو ۔ اگر عمر کسی برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا عمر کس ارادہ سے آئے ہو ؟ سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں چناچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ج 1 ص 228 بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر) 5۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنالیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ ابو طالب کہنے لگے۔ واللہ ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ ! یہ ناممکن ہے۔ اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا بخدا ! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔ ابو طالب کہنے لگے بخدا ! یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر مخالفوں سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ (ابن ہشام 1 : 266، 267 بحوالہ الرحیق المختوم ص 145) ابو طالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔ 6۔ وہ مشورہ قتل جو آپ کی ہجرت کا سبب بنا : یہ واقعہ سورة انفال کی آیت نمبر 30 میں مذکور ہے اور حاشیہ میں اس کی پوری تفصیل آگئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور بالآخر طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی فلاں رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کیے رہیں اور جب آپ علی الصبح گھر سے نکلیں تو سب آدمی یکبارگی حملہ کر کے آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو مشرکوں کی اس سازش کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ چناچہ نہایت خفیہ طور پر ہجرت کر کے آپ ان مشرکین و کفار کے شر سے بال بال بچ گئے۔ اور کافروں کا یہ منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ 7۔ ہجرت کے بعد آپ کی گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیش کش : اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر بھی آپ کی تلاش اور تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک گروہ تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غار ثور کے دھانہ تک پہنچ بھی گیا۔ یہ لوگ غار کے منہ کے اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبر و استقامت کے اس پیکر اعظم میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (9 : 40) یہ واقعہ بھی سورة توبہ آیت نمبر 40 میں مذکور ہے وہاں حاشیہ دیکھ لیا جائے۔ انفرادی تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو فی الواقع آپ کے سر پر جا پہنچا تھا مگر اس کے گھوڑے نے یک لخت ٹھوکر کھائی تو وہ گرپڑا۔ پھر سوار ہوا تو پھر گھوڑے نے دوسری بار ٹھوکر کھائی۔ پھر گرا۔ پھر سوار ہوا تو گھوڑے نے تیسری بار ٹھوکر کھائی۔ اب وہ سمجھ گیا کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب تک نہ جائے۔ رسول اللہ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی اے اللہ اسے گرا دے چناچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) مزید تفصیل سورة توبہ کی آیت نمبر 40 کے حاشیہ یعنی واقعہ ہجرت میں آئے گی۔ 8۔ عمیر بن وہب جمحی کا ارادہ قتل 2 ھ : عمیر بھی آپ کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھا۔ جنگ بدر میں اس کا بیٹا گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصہ سے بےتاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے سامنے بدر کے کنوئیں میں پھینکے جانے والے مقتولین کا ذکر کیا تو صفوان کہنے لگا واللہ ! اب تو جینے کا کچھ مزا نہیں۔ عمیر کہنے لگا اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو محمد ﷺ کے پاس جا کر اسے قتل کر ڈالتا۔ صفوان کہنے لگا تمہارے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوگا تو انہیں بھی ضرور ملے گا۔ عمیر نے کہا ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔ اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔ اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا اسے آنے دو تاہم سیدنا عمر نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ نے سیدنا عمر سے کہا اس کی تلوار کو چھوڑ دو پھر عمیر سے پوچھا بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟ عمیر کہنے لگا میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔ کہنے لگا یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں ؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔ اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ نے فرمایا بات یوں نہیں۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آگئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔ عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کردو۔ ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ عمیر سے بات تک نہ کروں گا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچاؤں گا۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن بعد مکہ آیا۔ اور یہاں آ کر دعوت کا کام شروع کردیا اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام 1 : 661 تا 663 بحوالہ الرحیق المختوم ص 372) (9) یہود کا منصوبہ قتل 4 ھ بئر معونہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر غزوہ احد کے چرکہ کی یاد تازہ کردی۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کرلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوۃ الرجیع و بئرمعونہ) مگر آپ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی آپ کو اطلاع دی۔ راستہ میں عمرو بن امیہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا حالانکہ وہ معاہد تھے۔ جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور فرمایا کہ اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی۔ چناچہ اس رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔ میثاق مدینہ کی رو سے یہود بھی اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چناچہ آپ چند صحابہ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ کو ایک مکان کے صحن میں بٹھایا آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور یہود وہاں سے اس بہانہ سے اٹھ کر چلے آئے کہ ہم جا کر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ وہاں سے باہر آ کر آپ کو قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا کون ہے جو مکان کی چھت پر جا کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد ﷺ پر گرا کر اسے کچل ڈالے ؟ ایک دوسرا بدبخت فوراً اس کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ فوراً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ (الرحیق المختوم ص 462) (10) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل 6 ھ : سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا ثمامہ ! کیا صورت حال ہے ؟ ثمامہ کہنے لگا اگر مجھے قتل کردو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کردو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔ آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں۔ آپ واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ اسے رہا کردو۔ رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا واللہ ! آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آپ نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چناچہ جب ثمامہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آئے تو مشرکین مکہ کہنے لگے ثمامہ بےدین ہوگیا ہے ثمامہ نے کہا نہیں بلکہ میں تو مسلمان ہوا ہوں اور دیکھو ! آئندہ تمہیں یمن سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے گا تاآنکہ رسول اللہ مجھے اس بات کا حکم نہ دیں۔ چناچہ بعد میں واقعتاً بھی یہی کچھ ہوا۔ ثمامہ بن اثال کا واقعہ صحیحین میں کئی مقامات پر مذکور ہے مگر ان میں یہ صراحت نہیں کہ ثمامہ جب گرفتار ہوئے تو اس مسیلمہ کذاب کے حکم کے مطابق آپ کو قتل کے ارادہ سے نکلے تھے اس بات کی وضاحت سیرۃ طیبہ میں موجود ہے (سیرۃ طیبہ 2 : 297 بحوالہ الرحیق المختوم ص 506) 11۔ زہر آلود بکری کے گوشت سے آپ کے قتل کی یہودی سازش 7 ھ : خیبر کے فتح ہونے اور یہود سے مزارعت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد آپ نے چند دن خیبر میں قیام فرمایا۔ غدار اور مکار شکست خوردہ یہود نے ان ایام میں آپ کو ہلاک کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ سلام بن مشکم کی بیوی کو، جو یہودی سردار مرحب کی بیٹی تھی اس کام کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زینب نے آپ کو دعوت کا پیغام بھیجا جسے آپ نے ازراہ کرم قبول کرلیا۔ آپ سے پوچھ لیا گیا کہ آپ کونسا گوشت کھانا پسند فرماتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا دستی کا اس دعوت میں آپ چند صحابہ سمیت وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ آپ نے کھانا شروع کیا تو پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آپ نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن سیدنا بشر بن براء نے چند ایک لقمے کھا لیے تھے لہذا وہ اس زہر کے اثر سے ایک دو دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ نے زینب کو بلا کر پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ بھی بتادیا کہ اس سازش میں پوری یہودی قوم شریک تھی۔ آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ وہ کہنے لگے کہ ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔ (بخاری کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی۔۔ ) آپ نے اپنی طرف سے تو زینب اور یہود کو معاف فرما دیا لیکن سیدنا بشر کے قصاص میں زینب کے قتل کا حکم دے دیا (ابن ہشام 2 : 235 تا 237 بحوالہ الرحیق المختوم ص 598) آپ نے اپنی مرض الموت میں سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا عائشہ ؓ ! اب مجھے معلوم ہوا کہ جو لقمہ میں نے خیبر میں کھایا تھا اس کے زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ گئی (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی۔۔ ) 12۔ خسرو پرویز شاہ ایران کا ارادہ قتل 7 ھ : صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے شاہان عجم کے نام دعوت نامے بھیجے۔ شاہ ایران کو جب یہ دعوت نامہ پہنچا تو غصہ سے خط پھاڑ دیا اور کہنے لگا : میرا غلام ہو کر ایسا خط لکھتا ہے ؟ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر) پھر اس نے حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ وہ کسی آدمی کو بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے دو آدمی اس غرض سے مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ شہنشاہ عالم کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گا۔ آپ نے ان سے کہا اچھا تم کل آنا۔ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تمہارے شہنشاہ عالم کو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔ وہ آدمی جب یمن واپس آئے تو خسرو کے قتل کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج 1 ص 482) 13۔ جادو کے ذریعہ آپ کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش : زہر آلود بکری کے گوشت کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ کو ہلاک کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو بڑا ماہر جادوگر تھا۔ آپ پر ایسا خطرناک جادو کرنے کی درخواست کی جو آپ کو جلد از جلد ہلاک کر ڈالے۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آپ کے سر کے کچھ بال حاصل کرلیے۔ ان بالوں پر منتر پڑھے گئے پھر ان میں گانٹھیں دے کر پھونکیں ماری گئیں۔ پھر انہیں کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ اتنا سرخ اور خونیں ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں فرشتے بھیج کر اس کی حقیقت بتلا دی اور اس طرح اللہ نے آپ کو اس شر سے بھی محفوظ کرلیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90؀) 16 ۔ النحل :90) اور سورة فلق کا حاشیہ نمبر 5 14۔ دشمن قبیلہ کے ایک بدوی کا ارادہ قتل : غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر اسلامی لشکر نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام ؓ الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ بھی ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے تلوار درخت سے لٹکائی اور لیٹتے ہی نیند غالب آگئی۔ اتنے میں دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ کو جاگ آگئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ اب بتلاؤ ! تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا میرا اللہ یہ الفاظ آپ نے اس قدر بےباکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ آپ نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ نے اس بدو کو معاف کردیا (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب من علق سیفہ بالشجرۃ فی السفر عند القائلۃ) واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔ 15۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل 8 ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ کے قریب آیا تو آپ نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا (الرحیق المختوم ص 648) 16۔ منافقوں کی آپ کو قتل کرنے کی سازش 9 ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو آپ کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپ کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ڈھاٹے باندھے رات کی تاریکی میں آپ کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثنا آپ کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر انہیں تتر بتر کردیں۔ اس کام سے منافقوں کو بھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں۔ لہذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکر دامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنادیا۔ (الرحیق المختوم ص 686) آپ نے سیدنا حذیفہ بن یمان کو ان منافقوں کے نام معہ ولدیت بتلا دیئے تھے اور سیدنا حذیفہ ان کو پہنچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ نے انہیں یہ ہدایت کردی تھی کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا ذکر مسلم، کتاب صفۃ المنافقین میں بھی مجملاً مذکور ہے۔ نیز دیکھئے ( سورة حجرات کا حاشیہ نمبر 34) 17۔ عامر بن طفیل اور اربد کی سازش قتل 10 ھ : 10 ھ میں مدینہ میں جو وفود آئے ان میں سے ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشد و ہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا۔ ایک وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئرمعونہ کے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا۔ دوسرا اربد بن قیس۔ تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا جبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔ عامر اور اربد نے راستہ ہی میں یہ سازش تیار کی کہ دھوکہ دے کر محمد کو قتل کردیں گے چناچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا تاکہ آپ کو دھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھ کی حرکت بند کردی اور وہ اسے بےنیام بھی نہ کرسکا اور ان کی یہ سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے عزائم طشت ازبام ہوگئے۔ آپ نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چناچہ واپسی پر اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مرگیا۔ رہا عامر تو واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پر ایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے آہ : اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے اپنی گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں۔ (1) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا۔ (2) یا آپ کے بعد آپ کا خلیفہ میں بنوں گا اور (3) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں کو آپ پر چڑھا لاؤں گا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں۔ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ۔ چناچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں اسے موت نے آلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) سو یہ ہے ان قاتلانہ حملوں اور سازشوں کی مختصر داستان جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے اس محسن انسانیت کے لیے جو دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح و فلاح کا یکساں درد رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا کر (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) کا وعدہ پورا کردیا۔
Top