Urwatul-Wusqaa - Yunus : 32
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
فَذٰلِكُمُ : پس یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمُ : تمہارا رب الْحَقُّ : سچا فَمَاذَا : پھر کیا رہ گیا بَعْدَ الْحَقِّ : سچ کے بعد اِلَّا : سوائے الضَّلٰلُ : گمراہی فَاَنّٰى : پس کدھر تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے پھر بتلاؤ سچائی کے جان لینے کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ تم منہ پھیرے کدھر کو جا رہے ہو ؟
سب کا حقیقی پروردگار اللہ ہی ہے گمراہوں کی قسمت میں ہدایت کہاں ؟ ۔ 53 دو اور دو کو چار نہ ماننے والوں کا نہ کوئی علاج تھا اور نہ ہے سوائے اللہ کے کہ اس نے پہلوئوں کا علاج کیا کہ ان کو تہس نہس کر کے نئے لوگ پیدا کئے اور وہی اس وقت کے مشرکوں کا علاج کرسکتا ہے۔ قرآن کریم کی صدا اس وقت بھی وہی تھی جو آج ہے اور آج بھی وہی ہے جو اس وقت تھی اور اللہ کے کاموں میں اس کا کوئی شریک جو نہ اس وقت تھا اور نہ اب ہے۔ جو ذات الہ ان صفات کمال سے متصف ہے جو ان خوبیوں کی مالک ہے وہی تو خدا برحق ہے ، اس کے علاوہ اگر کوئی کسی کو اپنا خدا اور معبود بنائے گا تو وہ یقینا گمراہ ہوجائے گا۔ ذرا غور تو کرو کہ کہاں ظن وتخمین کے ریگزاروں اور وہم و گمان کے ویرانوں میں مارے مارے پھر رہے ہو۔ پھر غور کرو کہ اگر ابنیاء کرام اور اولیائے عظام کے بت بنائے جائیں جیسے سیدنا ابراہیم علیہالسلام اور اسماعیل (علیہ السلام) کا بت بنایا گیا اور سیدہ مریم صدیقہ کی شبیہ تیار کی گئی تو کیا ان نیک اور پاک باز لوگوں کے بت ویسے ہی نہیں ہوں گے جیسے لات ، مناۃ اور عزیٰ کے بت تھے ؟ کیا ان پاک بازوں کے بت نہیں بنائے گئے ؟ قبر اور بت میں آخر فرق کیا ہے ؟ اگر مہا تمہ بدھ کے بت کی بجائے اس کی قبر بنا لیج ائے تو اس کی پرستش یعنی وہاں سجدہ وسلام جائز ہوجائے گا ؟ دراصل بات وہی ہے کہ بت کی بجائے اس کی قبر بنا لی جائے تو اس کی پرستش یعنی وہاں سجدہ وسلام جائز ہوجائے گا ؟ دراصل بات وہی ہے کہ بت کی بجائے اس کی قبر بنا لی جائے تو اس کی پرستش یعنی وہاں سجدہ وسلام جائز ہوجائے گا ؟ دراصل بات وہی ہے کہ بت کی بجائے اس کی قبر بنا لی جائے تو اس کی پرستش یعنی وہاں سجدہ وسلام جائز ہوجائے گا ؟ دراصل بات وہی ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس کو دیتا ہے جو ہدایت کا طالب ہو جو غیر اللہ کی پرستش کا داعی ہے وہ ہدایت پا ہی نہیں سکتا جب تک کہ غیر اللہ کی پرستش سے باز نہ آئے اور جو حق سے منہ پھیر لے اس کو بزور حق کی طرف نہیں پھیرا جائے گا۔ فرمایا جا رہا ہے کہ فانی تصرفون ؟ سوالیہ ہے اور یہ سوال ہم لوگوں سے ہے اور پھر ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ ” تم کدھر پھرتے جاتے ہو ؟ “ بلکہ یہ ہے کہ ” تم کدھر پھرائے جا رہے ہو۔ “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ پر پھیر رہا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں پر اپیل یہ کی جا رہی ہے کہ تم اندھے بن کر غلط راہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو اپنی گرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے تو آخر تم کو یہ کدھر چلایا جا رہا ہے ؟ یہ طرز سوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن کریم میں اختیار کیا گیا ہے اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کی بجائے ان کو صیغہ مجہول کے پردہ میں چھپا دیا گیا ہے تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کرسکیں اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلوانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشوائوں پر چوٹیں کی جا رہی ہیں۔ بلاشبہ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہئے۔ لیکن مخالفین نے جب تاویلیں کر کے ان آیات کریمات سے بتوں کو مراد لیا اور انبیائے کرام اور اولیائے عظام کو اللہ کے ساتھ شریک بنا کر رکھ دیا تو اب اس کی لازماً ضرورت ہوئی کہ حقیقت سے ان کا ڈالا ہوا پردہ بھی اٹھایا جائے تاکہ حقیقت کھل کر اصلیت واضح ہوجائے ۔
Top