Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 28
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَتَطْمَئِنُّ : اور اطمینان پاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : جن کے دل بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے اَلَا : یاد رکھو بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے تَطْمَئِنُّ : اطمینان پاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع)
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوگئے اور یاد رکھو یہ اللہ کا ذکر ہی ہے جس سے دلوں کو چین اور قرار ملتا ہے
ایمان لانے والوں کے دل مطمئن ہیں اور ذکر الٰہی ان کے دلوں کے اطمینان کا باعث ہے 46 ؎ انسانی زندگی کا مطالعہ کروتم دیکھو گے کہ انسان زندگی کی آسائش و آرام کیلئے کیا کچھ ہے جو نہیں کرتا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس کے اختیار میں ہے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آرام و آسائش اس کو مل جائے جس سے دل کو قرار آئے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بےانتہا کوششوں کے باوجود اور ان گنت آسائشوں اور آرام حاصل کرنے کے باوجود دلوں کو قرار نہیں آتا بلکہ دل کے سارے امراض بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں جدھر دیکھو پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ مال و دولت کے ڈھیروں ‘ زمینوں اور کارخانوں اور اقتدار کی کرسیوں میں دل کا اطمینان موجود نہیں پھر وہی بات ہوئی کہ گم ہونے والی سوئی جس جگہ گم ہوئی وہاں اندھیرا ہے اس لئے روسنی میں اس کو تلاش کرنا ہوگا پھر روشنی وہاں موجود نہیں تو کیا جہاں روسنی ہے وہ وہاں سے مل جائے گی ؟ کبھی نہیں کیونکہ اگر اس کو ملنا ہے تو وہیں سے جہاں وہ گم ہوئی ہے اور آپ کو وہاں روشنی کرنا ہوگی تاکہ تمہاری گم شدہ سوئی مل سکے۔ تمہاری کیا چیز گم ہوئی ؟ اطمینان قلبگم ہوگیا اور اس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور ہر جگہ اس کو تلاش کیا۔ مال سے دولت سے ‘ زمینوں سے ‘ باغات سے ‘ کو ٹھیوں سے ‘ کاروں سے ‘ کارخانوں سے ‘ اقتدار کی کرسیوں کے نیچے لیکن کیا وہ کہیں سے مل بھی گیا ؟ ہرگز نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ یہ اس کی جگہ نہیں جہاں ” اطمینان قلب “ تم کو مل جائے فرمایا اطمینان قلب چاہتے ہو تو اللہ کا ذکر اختیار کرو اور یاد رکھو اطمینان قلب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے مل سکتا ہے۔ جب تک دل میں شک کا کانٹا چبھتا رہتا ہے انسان کو کسی پہلو قرار نہیں آتا اور جب یقین کا اجالا ہوتا ہے تو سارے اضطراب ختم ہوجاتے ہیں اور ساری بےچینیاں دو رہو جاتی ہیں۔ فرمایا ذکر الٰہی سے دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے یہی وہ نور ہے جس سے شبہات کے اندھیرے بھاگ جاتے ہیں یہی وہ غذا ہے جس سے روح کو تقویت ملتی ہے اور انسان میں مضمر صلاحیتیں نشو ونما پاتی ہیں اور جوان ہوتی ہیں۔ اس سے انسان میں وہ جلال اور قوت نمودار ہوتی ہے جس سے شیطان پر لرزہ طاری ہوتا ہے اور اس کے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ دنیا کی ساری نعمتوں میں سے اطمینان قلب سے عظیم نعمت ہے۔ دولت ‘ عزت ‘ صحت اور کثرت اولاد کے باوجود بھی روح کو سکون اور دل کو چین نصیب نہیں ہوتا صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی وہ آب حیات ہے کہ جس سے سیر کام ہونے والا پھر کبھی بھی تشنگی ‘ کوئی خلجان اور کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کرتا وہ تختہ دار پر بھی اور آتش کدہ نمرود میں بھی مسکراتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کا ذکر کیا چیز ہے ؟ کیا اللہ اللہ کی ضربیں لگانے سے اللہ کا ذکر ہوتا ہے ؟ تسبیح کے دانوں پر اللہ اللہ یا کوئی دوسرا درود و وظیفہ کرنا اللہ کا ذکر ہے ؟ کیا زندہ درگور ہوجانا اللہ کا ذکر ہے ؟ کیا ڈھولک کی تھاپ پر ناچنا اور گانا اللہ کا ذکر ہے ؟ کیا قبروں وار مزاروں ‘ ویرانوں اور بیابانوں میں بیٹھ کر ‘ پھر کر ‘ راتیں گزارنا اللہ کا ذکر ہے ؟ یہ اور ان جیسے بیسیوں سوالوں کا جواب بھی نفی ہی میں دیا جائے گا اور ” ذکر اللہ “ صرف یہ ہوگا کہ انسنا قلب کو غیر الہ کی طرف سے متوجہ ہونے کے الجھائو سے بچا لے تو انشاء اللہ یقینا اطمینان قلب حاصل ہوجائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ یہ فقرہ یاد کرلیں انشاء اللہ سارے دکھوں اور سارے دردوں کی دوا اسی میں ہے اگر آپ نے اس کو سمجھ لیا ہاں ! اگر سمجھ میں نہ آئے تو بندہ خدمت کے لئے حاضر ہوگا انشاء اللہ العزیز وار وہ فقرہ یہ ہے کہ ” انسان قلب کو غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے الجھائو سے بچا لے “۔ پھر اس کی جگہ کیا ہوئی ؟ غور کرو گے ‘ تسلیم کرو گے کہ ” دل “ بشرطیکہ وہ زندہ ہوا۔
Top