Urwatul-Wusqaa - Hud : 71
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالسَّيِّئَةِ : برائی (عذاب) قَبْلَ الْحَسَنَةِ : بھلائی (رحمت) سے پہلے وَ : اور حالانکہ قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہیں مِنْ : سے قَبْلِهِمُ : ان سے قبل الْمَثُلٰتُ : سزائیں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَذُوْ مَغْفِرَةٍ : البتہ مغفرت والا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلٰي : پر ظُلْمِهِمْ : ان کا ظلم وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ : البتہ سخت عذاب دینے والا
یہ تم سے برائی کے لیے جلدی مچاتے ہیں قبل اس کے کہ بھلائی کے لیے خواستگار ہوں حالانکہ ان سے پہلے ایسی سرگزشتیں گزر چکی ہیں جن کی کہاوتیں بن گئیں ، تو اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار لوگوں کے ظلم سے بڑا ہی درگزر کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تیرا پروردگار سزا دینے میں بڑا ہی سخت ہے
چاہئے تو تھا کہ بھلائی کی طلب کرتے لیکن ان کو عذاب الٰہی کا بڑا شوق ہے 12 ؎ اے پیغمبر اسلام آپ ﷺ کے مخالفین و معاندین اس طرح کے لوگ ہیں جس طرح کے پہلے انبیاء کرام ﷺ کی امتوں اور قوموں میں گزر چکے۔ آج سے نہیں یہ تو ان لوگوں کی مدت سے حالت چلی آرہی ہے کہ یہ بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول ﷺ سے بھلائی اور نیکی طلب کرتے لیکن انہوں نے بھلائی طلب کرنے کی قسم کھائی کہ اس کو طلب نہیں کریں گے ان کو عذاب الٰہی کا بڑا شوق ہے یہ جب مانگتے ہیں اور جب اپنے رسولوں سے مطالبہ کرتے ہیں تو اس بات کا کہ وہ عذاب آ کر کیوں نہیں جاتا اور تو اے رسول ! اس پر عذاب کو لے کیوں نہیں آتا ؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اسلام کی حقانیت کے روشن دلائل ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ان میں تو غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے البتہ منکروں کیلئے اللہ نے جو عذاب مقدر کیا ہے اس کے جلد آنے کیلئے بڑا شور مچاتے ہیں انہوں نے اسلام کی حقانیت کی صرف ایک دلیل اپنے ذہن میں جمائی ہوئی ہے کہ اگر وہ عذاب اتر آیا تو یہ نبی بھی سچا اور اس کا دین بھی اور اگر ان کی فرمائش کے مطابق نہ اترا اور انہیں سوچنے کی مزید مہلت دے دی گئی تو بس یہ فیصلہ دے دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ من گھڑت اور کھوکھلی دھمکیاں ہیں۔ وہ نادان یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر وہ عذاب ان پر نازل کردیا جائے اور اسوقت اسلام اور داعی اسلام کی صداقت کا یقین انہیں آ بھی جائے تو اس سے انہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ وہ تو تباہ و برباد کردیئے گئے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ نادان بچوں کی طرح یہ ضد چھوڑ دو ۔ صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ میرے جنازہ میں کون کون شرکت کرتا ہے اگر کوئی موت اختیار کرلیتا ہے تو وہ مر تو جائے گا لیکن اس کو کوئی علم نہ ہوگا کہ کون جنازہ میں ملا اور کون وضو کرتا رہ گیا ؟ بہتر ہوتا کہ یہ لوگ ان مہلت کی گھڑیوں سے فائدہ حاصل کرتے اور دلائل و شواہد میں غور کرتے اور نور ایمان سے اپنے سینوں کو روشن کرلیتے۔ یہ ضد جو اس وقت یہ کر رہے ہیں ان سے پہلے کتنی ہی قومیں تھیں جو کر گزریں 13 ؎ آج جو انکار و حجود یہ اختیار کر رہے ہیں ان سے پہلے کتنی ہی قومیں تھیں جو اختیار کر چکیں۔ انسان کی یہ بھول آج کی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے کہ وہ جب بولتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ اگر انکار و بدعملی کا برا نتیجہ نکلنے والا ہے تو وہ نتیجہ کہاں ہے ؟ کیوں پیش آ نہیں جاتا ؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا ہے پس فوراً نتیجہ بدپیش نہیں آجاتا بلکہ مہلتوں پر مہلتیں دی جاتی ہیں لیکن جب وقت آجائے تو وہ شدید العقاب بھی ہے کیونکہ پاداش عمل کبھی ٹلنے والی نہیں اور نہ ہی کسی طرح کی نرمی کرنے والی ہے۔ انسان کی یہ عالم گرے گمراہی ہے کہ وہ سچائی کو سچائی میں تلاش نہیں کرتا بلکہ دوسری چیزوں میں تلاش کرتا ہے ازاں جملہ یہ کہ اچنبھوں اور عجائب کاریوں کو سچائی کی دلیل سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ سب سے زیادہ سچا انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ عجیب و غریب ہو۔ قرآن کریم نے انسان کی جن بنیادی گمراہیوں کا ازالہ کیا من جملہ ان کے ایک گمراہی یہ ہے اور اس نے جا بجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دعوت حق کی شناخت خود دعوت ہے نہ کہ عجائب وغرائب کا ظہور جسے لوگوں نے دلیل صداقت سمجھ رکھا ہے۔ وہ غفور و رحیم بھی ہے تو شدید العقاب بھی وہی ہے ‘ ذرا عقل کے ناخن لو 14 ؎ ضرورت کی بات کو یاد رکھنا اور جس کی ضرورت نہ ہو وہ بھول جانا عقل مندی اور سمجھداری نہیں بلکہ بےعقلی اور کو رپن کی علامت ہے۔ گزشتہ قوموں ‘ لوگوں اور واقعات سے فائدہ نہ اٹھانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ جن لوگوں نے عذاب الٰہی کے نزول کا مطالبہ کیا اور اس نزول عذاب کو نبی کی صداقت کا معیار قرار دیا ہم نے ان پر ان کی بےتاب خواہش اور بیحد اصرار کے باعث جب عذاب بھیجا تو کیا وہ تباہ و برباد ہو کر نہ رہ گئے۔ غور کریں کہ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اس کو کاٹنا چاہتے ہیں ‘ نہیں بلکہ کاٹ رہے ہیں تو پھر جب یہ کٹ جائے گی نتج ہے کیا نکلے گا ؟ اے پیغمبر اسلام ! تیرا پروردگار غفور و رحیم ہے تو شدید العقاب بھی ہے۔ بلاشبہ وہ انسانوں پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا اور بلاشبہ اس کی رحمت کا دامن بڑا وسیع ہے۔ بندے نافرمانی کرتے ہیں ‘ قصور کرتے ہیں ‘ کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں ‘ فسق و فجور کی اٹھا کردیتے ہیں لیکن وہ غفور و رحیم درگزر کرتا ہی رہتا ہے۔ بلاشبہ اس کا شیوہ ہی کرم کرنا اور کرتے ہی رہنا ہے لیکن جب وقت آجاتا ہے اور وہ اس بات کو برملا اعلان کہہ دیتا ہے کہ اب تک تو تم نے جو کیا سو کیا سب کچھ برداشت ہوتا رہا لیکن اب یاد رکھو کہ سو سنار کی پر ایک ہی لوہار کی لگے گی تو سارا کام چوڑ چوپٹ ہوجائے گا۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اس لئے جب انکار وعناد کی حد ہوجاتی ہے اور مہلت کا عرصہ ختم ہوجاتا ہے تو پھر ان پر اتنا شدید عذاب آتا ہے کہ وہ نتس و نابود کر کے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ذرا گزشتہ واقعات کو ذہن میں لائو اور دیکھو کہ نوح (علیہ السلام) سے لے کر لوط (علیہ السلام) کے واقعات تک تم کو سنائے گئے ان قوموں اور جماعتوں کی ساتھ کیا کیا گیا اور ان کو یکے بعد دیگرے صفحہ ہستی سے کیونکر مٹایا گیا ؟
Top