Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں تم تو بس اپنے جی سے گھڑ لیا کرتے ہو ، حالانکہ ان میں سے اکثروں کو معلوم نہیں
کسی آیت کے ساتھ آپ کے بدلنے کا مفہوم کیا ہے ؟ 115۔ ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ زیر نظر آیت سے مفسرین نے ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ نکالا ہے حالانکہ اس آیت کا مفہوم مطلق ایسا نہیں ہے ، قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ کرکے اس کی جگہ کوئی دوسری آیت کے لانے کا تصور تو ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کوئی آیت اس طرح منسوخ کی گئی تاہم اس جگہ اس بحث کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ناسخ ومنسوخ کے متعلق ہم مکمل بحث سورة البقرہ کی آیت 106 میں کرچکے ہیں ۔ دراصل یہود ونصاری اور مشرکین مکہ یہ تینوں گروہ قرآن کریم کے نزول کے وقت مخاطبین اول تھے اور تینوں ہی کو دعوی تھا کہ وہ اپنے پاس ایک ہدایت رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ، جب کوئی آیت قرآن کریم میں نازل ہوتی اور وہ اس کا مضمون ومفہوم اپنے دین و مذہب کے خلاف پاتے تو رسول اللہ ﷺ پر یہ الزام لگاتے کہ اس نے یہ بات اپنے پاس سے گھڑ لی ہے اور انہوں نے یہ الزام ایک بار نہیں بلکہ بار بار لگایا جس کا ذکر قرآن کریم نے بھی ہر بار کیا ہے ۔ زیر نظر آیت میں پہلی آیت سے مراد انکی آیت ہے جس کو وہ اپنے ہاں ہدایت الہی تسلیم کرتے تھے اگرچہ وہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ تھی لیکن اس جگہ اس بحث میں مبتلا ہونے سے بچتے ہوئے کہ آیا وہ حکم الہی ہے یا نہیں اس کو بطور نشانی تسلیم کیا گیا کیوں ؟ اس لئے کہ ان کے ہاں وہ حکم من حیث القوم تسلیم شدہ تھا لہذا اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے جو کچھ نازل کیا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم تو بس اپنے جی سے گھڑ لیا کرتے ہو۔ “ گویا وہ یہ الزام تو محمد رسول اللہ ﷺ پر رکھتے ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ یہ بات محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں گھڑی بلکہ انہوں نے یا انکے بڑون نے وہ بات گھڑی تھی جس کو بیان کرتے ہیں اور اس کے متعلق سمجھتے ہیں کہ یہ ہم پر اللہ نے اتارا ہے حالانکہ اللہ نے اس کو نہیں اتارا اللہ نے تو وہی اتارا جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گاو اس لئے یہاں ارشاد فرمایا کہ ” ان میں سے اکثروں کو معلوم نہیں کہ حقیقت حال کیا ہے ۔ “ وہ ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں لگاتے رہتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی کو مان لیں اور تسلیم کرلیں دوسروں پر الزام دیتے ہیں اور یہ بات بھی ان کی کوئی نئی بات نہیں گزشتہ قومیں بھی اپنے انبیاء کرام کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔
Top