Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۧ
وَاذْكُرْ
: اور یاد کرو
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب میں
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
اِنَّهٗ كَانَ
: بیشک وہ تھے
صِدِّيْقًا
: سچے
نَّبِيًّا
: نبی
{ الکتب } (یعنی قرآن کریم) میں ابراہیم کا ذکر کر ، یقینا وہ مجسم سچائی تھا اور اللہ کا نبی تھا
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) قصہ مختصر کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو جج وبرہان اور آیات اللہ کے ذریعے دین حق کی تعلیم دیتے رہتے ہیں اور ان کے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلا کر ان کے مردہ قلوب میں حیات تازہ بخشتے رہتے تھے ، خدا اور خدا کی توحید پر ایمان وانبیاء ورسل (علیہم السلام) کی تصدیق آخر یعنی معاد پر ایمان ‘ ملائکہ ‘ اللہ پر ایمان ‘ قضاوقدر پر ایمان ‘ خدا کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان اخلاق حسنہ کے اختیار ‘ اعمال سیئہ سے پرہیز واجتناب ‘ عبادات الہی سے رغبت ‘ دنیا میں انہماک سے نفرت اور خدا کے کنبہ یعنی مخلوق خدا سے محبت ومودت یہی وہ تعلیم وتلقین تھی جو انکی زندگی کا مشغلہ اور فرض منصبی تھا اور وہ بنی اسرائیل کو توراۃ وانجیل اور حکیمانہ پند ونصائح کے ذریعہ ان امور کی جانب دعوت دیتے مگر بدبخت یہود اپنی فطرت کج صدیوں کی مسلسل سرکشی اور تعلیم الہی سے بغاوت کی بدولت اس درجہ متشدد ہوگئے تھے اور انبیاء ورسل کے قتل نے ان کے قلوب کو حق وصداقت کے قبول میں اس درجہ سخت بنا دیا تھا کہ ایک مختصر جماعت کے علاوہ ان کی جماعت کے سواد اعظم نے ان کی مخالفت اور ان کے ساتھ حسد وبغض کو اپنا شعار اور اپنی جماعتی زندگی کا معیار بنا لیا تھا اور اس لئے انبیائے کرام (علیہم السلام) کی سنت راشدہ کے مطابق رشد وہدایت کے حلقہ بگوشوں میں دنیوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور وناتواں اور زیردست پیشہ ور طبقہ ہی نظر آتا تھا ، ضعفاء اور کمزور لوگوں کا یہ طبقہ اگر اخلاص ودیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا سرکش اور مغرور حلقہ جو سواد اعظم کی حیثیت بھی رکھتا تھا ان کمزوروں پر اور خدا کے پیغمبر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر پھبتیاں کستا ‘ توہین وتذلیل کا مظاہرہ کرتا اور اپنی عملی زندگی کا بڑا حصہ معاندت ومخالفت میں صرف کرتا رہتا ، قرآن کریم نے اس کی جا بجا تفصیل پیش کی ہے مثلا سورة الزخرف آیت 63 ، 65 سورة الصف آیت 6 ، سورة آل عمران آیت 52 ملاحظہ کریں : سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا ذکر قرآن میں : اناجیل اربعہ اور قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ جہاں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں ایک انبوہ کثیر یا سواد اعظم تھا وہاں ایک چھوٹا سا گروہ آپ کے حواریوں کا بھی تھا ، لیکن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) مخالفین ومعاندین کی دراندازیوں اور ہرزہ سرایوں کے باوجود اپنے فرض منصبی ” دعوۃ الی الحق “ میں سرگرم عمل رہتے اور شب وروز بنی اسرائیل کی آبادیوں اور بستیوں میں پیغام حق سناتے اور روشن دلائل اور واضح آیات اللہ کے ذریعہ لوگوں کو قبول حق وصداقت پر آمادہ کرتے رہتے تھے اور خدا اور حکم خدا سے سرکشی اور باغی انسانوں کی اس بھیڑ میں ایسی سعید روحیں بھی نکل آتی تھیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت حق پر لبیک کہتی اور سچائی کے ساتھ دین حق کو قبول کرلیتی تھیں ، انہیں پاک بندوں میں وہ مقدس ہستیاں بھی تھیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے شرف محبت سے فیض یاب ہو کر نہ صرف ایمان ہی لے آئی تھیں بلکہ دین حق کی بلندی اور کامیابی کے لئے انہوں نے جان ومال کی بازی لگا کر خدمت دین کے لئے خود کو وقف کردیا تھا اور اکثر وبیشتر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر تبلیغ و دعوت کو سرانجام دیتی تھیں ، اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ” حواری “ رفقا اور ” انصار اللہ “ یعنی اللہ کے دین کے مددگار کے مقدس القاب سے معزز وممتاز کی گئیں چناچہ ان بزرگ ہستیوں نے پیغمبر خدا کی حیات پاک کو اپنا اسوہ بنا لیا اور سخت سے سخت اور نازک سے نازک حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر طرح معاون و مددگار ثابت ہوئیں جس کا ثبوت آج بھی قرآن کریم پیش کرتا ہے جیسا کہ فرمایا : ” اور اے عیسیٰ وہ وقت یاد کرو جس میں نے حواریوں کی جانب یہ وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے جواب دیا ہم ایمان لائے اور اے اللہ ! تو گواہ رہ کہ ہم بلاشبہ مسلمان ہیں ۔ “ (مائدہ) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے ایمان والو ! تم اللہ کے دین کے مددگار ہوجاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم نے جب حواریوں سے کہا کہ اللہ کے راستہ میں کون میرا مددگار ہے تو حورایوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کی راہ کے مددگار ، پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لائی اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا سو ہم نے مومنون کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں تائید کی پس وہ مومن غالب رہے ۔ “ (الصف 61 : 14) لیکن افسوس کہ (آیت) ” فایدنا الذین امنوا علی وعدوھم فاصبحوا ظاھرین “۔ کے فقرہ کو ہمارے مفسرین نے بھی پیش نظر نہ رکھا اور یہود ونصاری نے تو جو مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کی تصویر کھینچی ‘ وہ کھینچنی ہی تھی اہل اسلام بھی انہی کی نقالی کرتے گئے اور آپ کی کامیابی کا پہلو اجاگر نہ کرسکے حالانکہ قرآن کریم نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین ومعاندین گروہ کو اگرچہ وہ ظاہری طور پر طاقتور بھی تھا اور سواد اعظم بھی لیکن انجام کار اس کا ناکامی کی طرف واضح اشارہ کردیا اور بتادیا کہ کامیابی اس کمزور اور مزدور طبقہ کے حصہ میں آئی اگرچہ وہ قلیل بھی تھا جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ حواری بیشتر غریب اور مزدور طبقہ میں سے تھے کیونکہ انبیائے کرام (علیہم السلام) کی دعوت وتبلیغ کے ساتھ ” سنت اللہ “ یہی جاری ہے کہ ان کی صدائے حق پر لبیک کہنے اور دین حق پر جان سپاری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اول غریب اور کمزور طبقہ ہی آگے بڑھتا ہے اور زیردست ہی فداکاری کا ثبوت دیتے ہیں اور وقت کی صاحب اقتدار اور زبردست ہستیاں اپنے غرور اور گھمنڈ کے ساتھ مقابلہ اور معارضہ کے لئے سامنے آتی اور معاندانہ سرگرمیوں کے ساتھ اعلاء کلمتہ اللہ کی راہ سنگ گراں بن جاتی ہیں لیکن جب رب ذوالجلال والاکرام کا قانون پاداش عمل اپنا کام کرتا تو نتیجہ میں فلاح و کامرانی ان کمزور فدایان ہی کا حصہ ہوجاتا ہے اور متکبر ومغرور ہستیاں یا ہلاکت کے قعر مذلت میں گرتی ہیں اور یا مقہور ومغلوب ہو کر سرنگوں ہوجانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں دیکھتیں اور یقینا یہی بات سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے حواریوں کے حصہ میں آئی اور مخالفین ومعاندین کے سارے دعاوی کا پول قرآن کریم کی سورة الصف کے اس فقرہ نے کھول کر رکھ دیا کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ دوسری بات ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے مواعظ اور انداز وخطاب میں جلالت نمایاں ہے لیکن افسوس کہ آپ کے اس پہلو کو بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا قوم کے وڈیروں کو خطاب کرنے کا انداز : جیسا کہ پیچھے ارشادات کئے گئے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بعثت سے پہلے ہی قوم کے بڑے بڑے لوگوں سے طریق تخاطب ایسا رکھتے تھے کہ ان کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ، ان کے سوالوں کے مسکت جواب سناتے تھے اور ان پر اس طرح کے سوال اٹھاتے کہ وہ سوال سن کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے اور جواب نہیں دے سکتے تھے ، ان کے بچپنے کے ایسے واقعات کی طرح قرآن کریم نے بھی اشارہ فرمایا ہے کہ جب ان کے ماں باپ ان کو پہلی بار 12 ، 13 سال کی عمر میں عید فسح پر مصر سے ساتھ لائے تھے اور یہاں چل کر ہو ناصرہ کی بستی میں رہائش پزیر ہوئے تھے قوم کے لوگوں نے مریم سے بات کرنا چاہی تو مریم (علیہ السلام) نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی طرف اشارہ کیا کہ انہی سے بات کرو تم کو ٹھیک ٹھیک جواب سنا دیں گے لیکن قوم کے لوگ یہ کہہ کر بات کو ٹال گئے کہ آپ کے ہوتے ہوئے اس بچہ سے بات کریں ‘ آخر کیوں ؟ لیکن جب سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پورے جوان ہوگئے اور تیس سال کے بعد جب نبوت سے سرفراز کردیئے گئے تو اس وقت تک آپ کی جلالت اس قدر نمایاں ہوچکی تھی کہ وہ قوم کے فقہیوں اور فریسیوں کو اس طرح مخاطب کرتے تھے کہ ان میں جواب کی سکت ہی نہ رہتی تھی حالانکہ یہی وہ طبقہ تھا جو قوم میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن سوائے سازشوں کے انکے پاس کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں کہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہونے والوں کو داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ “ (متی 23 : 13) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہو ‘ تمہیں زیادہ سزا ہوگی ۔ “ (متی 23 : 14) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ ایک مرید کے لئے تیری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہوچکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کافر بنا دیتے ہو۔ “ (متی 23 : 16) ” اے احمقو اور اندھو ! کون سا بڑا ہے سونا یا مقدس ؟ جس نے سونے کو مقدس کیا ہے ۔ “ (متی 23 : 17) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو وہ پکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے ۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے اے اندھے راہ بتانے والو ! جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نکل جاتے ہو۔ “ (متی 23 : 24) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں ، اے اندھے فریسی ! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں “۔ ‘ (متی 23 : 25 ، 26) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں ، اس طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بےدینی سے بھرے ہو ۔ “ (متی 23 : 27 ، 28) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ کہ نبیوں کی قبریں بناتے اور راست بازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے ، اس طرح تم اپنی نسبت گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو ، غرض اپنے باپ دادا کا پیمانہ بھر دو ۔ اے سانپو ! اے افعی کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے ؟ اس لئے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں اور فیق ہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں ان میں سے تم بعض کو قتل اور مصلوب کرو گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے ماروگے تاکہ سب راست بازوں کا خون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے ، راست باز ہابل کے خون سے لے کر بر کیا کے بیٹے زکریا کے خون تک جسے تم نے مقدس اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آئے گا ۔ “ (متی 23 : 35 ، 36) ” اے یروشلم ! اے یروشلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے ! کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں مگر تو نے نہ چاہا اب دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے ‘ جب تک کہ نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ۔ “ (23 : 28 ، 29) آپ کے مواعظ کا یہ نمونہ مشتے از خروارے کا مصداق بھی نہیں کیونکہ بہت ہی کم ہے تاہم اسی سے آپ کی جلالت شان خوب واضح اور روشن ہوجاتی ہے آپ اپنی قوم میں کتنی مدت رہے ہمارے مفسرین نے اشارہ کیا ہے کہ آپ کی مدت تبلیغ تین ‘ چار سال ہوئی ہے لیکن ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ تین ‘ چار سال تھی یا تیس ‘ چالیس سال ؟ بہرحال ہم یہ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس وقت تک قوم کے اندر رہے جب تک قوم میں سے آپ کے حواری ہر لحاظ سے کامیاب وکامران قرار نہ پائے اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کامیابی ان ہی لوگوں کا مقدر ہے جو صداقت وسچائی پر قائم ہوتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی کمزور اور مزدور قسم کے لوگ ہوں اور ناکامی ان کے حصے میں آتی ہے جو صداقت وسچائی کے جھٹلانے کے درپے ہوں خواہ وہ ظاہری طور پر کتنے ہی خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ کیوں نہ ہوں۔ مسیح (علیہ السلام) کی عائلی زندگی کے متعلق لوگوں کا خیال : ہمارے مفسریں کرام اور سیر نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نہ شادی کی اور نہ ہی بودوماند کے لئے کوئی گھر بنایا ۔ وہ شہر شہر اور گاؤں خدا کا پیغام سناتے اور دین کی دعوت وتبلیغ کا فرض انجام دیتے اور جہاں رات آپہنچتی وہی کسی سروسامان راحت کے بغیر شب بسر کردیتے تھے اور چونکہ انکی ذات اقدس سے مخلوق خدا جسمانی وروحانی دونوں طرح کی شفا اور تسکین پاتی تھی اس لئے جس جانب بھی ان کا گزر ہوجاتا خلق انبوہ حسن عقیدت کے ساتھ جمع ہوجاتا اور والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نثار ہوجانے کو تیار رہتا تھا ۔ ہمارے ان مفسرین کرام اور سیر نگاروں میں سے کسی ایک نے بھی اس کا کوئی حوالہ پیش نہیں کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ انہوں نے بود وباش کے لئے کوئی گھر نہیں بنایا تھا یہ کہ والدین کی طرف سے ملنے والے گھر کا آپ نے کیا کیا تھا یا آپ کے والدین بھی کہیں بود وباش نہ رکھتے تھے اور یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے شادی نہیں کی تھی اس کی سند کیا ہے ؟ عام طور پر اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں ان کی شادی کا کوئی ذکر تو کیا ارشاہ تک بھی نہیں ملتا ۔ لیکن کیا قرآن کریم نے باقی سارے انبیائے کرام (علیہم السلام) کی شادیوں کا کہیں فردا فردا ذکر کیا ہے کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شادیوں کا ذکر نہیں کیا ، کیا غیر شادی شدہ رہنا کوئی نیکی وتقوی کی بات ہے ؟ کیا شادی زہد وتقوی اور پرہیز گاری کے خلاف ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بیان کی کوئی اصلیت نہیں بلکہ سراسر وہم و گمان ہے کہ کسی ایک نے یہ بات تحریر کردی اور پھر نقل در نقل ہوتا چلا آیا بعد میں آنے والوں کے لئے پہلوں کی تحریرات سند بنا لی گئیں اور قرآن کریم پر غور وفکر حرام سمجھا گیا ورنہ قرآن کریم پر اگر غور وفکر کرنے کی اجازت ہو تو آج بھی یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ یقینا ان دونوں اللہ کے نبیوں نے بھی شادیاں کی تھیں اور انہوں نے ہرگز نن رہنا پسند نہیں کیا تھا چناچہ اسی طرح کا اعتراض جب نبی اعظم وآخر ﷺ پر کیا گیا تو یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے بھلا پیغمبروں کو بھی خواہشات نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے انکو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ “۔ (الرعد 13 : 38) ’ ” اے پیغمبر اسلام ! آپ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان سب کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا ۔ “ اور کنز العمال ج 8 ص 239 میں مرفوعا مروی ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا ” جو میرے دین پر قائم ہے اور ابراہیم علہل السلام جس پر صحیفے اترتے تھے اور داؤد وسلیمان (علیہما السلام) کے دین پر قائم ہے جن پر زبور اتری تھی اور جو زبور پر قائم تھے تو ضرورت کے مطابق نکاح کرنا ضروری ہے ۔ “ اور اسی طرح ج 8 ص 238 پر بحوالہ عبدالرزاق جابر ؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ ” جو کوئی بھی جوانی میں شادی کرتا ہے تو شیطان اس سے بہت دکھ پاتا ہے کہ وہ مجھ سے بچ نکلا۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ کے فریس کو جو جواب دیا وہ اس طرح ہے ” اور فریسی اسے آزمانے کو اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے ؟ اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے انہیں بنایا اس نے ابتدا ہی سے انہیں مرد اور عورت بنا کر اس سبب سے کہ مرد باپ سے اور ماں سے جدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں اس لئے جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے ۔ “ (متی 19 : 3 تا 7) ” مگر یسوع نے ان سے کہا کہ اس نے تمہاری سخت دلی کے سبب سے تمہارے لئے حکم لکھا تھا لیکن خلقت کے شروع سے اس نے انہیں مرد اور عورت بنایا ، اس لئے مرد اپنے باپ سے اور ماں سے جدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں اس لئے جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے ۔ (مرقس 10 : 7 تا 10) ” ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے ۔ “ (کرنتھیوں 1) ہاں ! بلاشبہ کرنتھیوں وغیرہ ہی میں اس کی طرف اپنے لئے بن بیاہا وغیرہ منسوب کیا گیا ہے لیکن یقینا یہ بعد کی تعبیرات ہیں جو شارحین اناجیل نے اپنی طرف سے اضافے کئے ہیں کیونکہ اصل اناجیل دنیا میں دستیاب ہی کہاں ہیں پھر ایک طرف یہ حکم کہ ” ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے “ کہا گیا تو دوسری طرف بن بیاہا رہنے کو کیونکر خوبی قرار دیا جاسکتا ہے اور پھر نبی اعظم وآخر ﷺ کا ارشاد بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق یہی ہے کہ ” یتزوج ویولد لہ “۔ ابن ابی حاتم ابن مردیہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے سورة رعد کی آیت 38 پڑھ کر ترک نکاح سے روکا ہے اور ابن ماجہ ‘ ابن منذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ اور طبرانی میں مرفوعا ترک نکاح سے منع کیا ہے اور قتادہ تابعی نے بھی مذکورہ آیت پڑھ کر یہی بیان کیا ہے ۔ نیزمردویہ اور طبرانی میں مرفوعا ترک نکاح سے منع کیا ہے اور قتادہ تابعی نے بھی مذکوہ آیت پڑھ کر یہی بیان کیا ہے ۔ نیز ترمذی ‘ ابن ابی شیبہ ، اور مسند احمد میں مرفوعا مروی ہے کہ نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے (علیہم الصلوۃ والسلام) اور صحاح ستہ اور دوسری کتب احادیث میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ ” النکاح من سنتی “ نکاح میری سنت ہے بلکہ تاکیدا بھی فرمایا ہے کہ ” من رغب عن سنتی فلیس منی “ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ میرا (فرمانبردار) نہیں ۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ کرنتھیوں کے خطوط کے وہ فقرات جن سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا مجرد رہنا بیان کیا گیا ہے ان کو اہمیت دیتے ہوئے ان سارے دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا تجرد وتبتل تسلیم کرو یا ان دلائل کے پیش نظر کرنتھیوں کی ان عبادت کو جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے تجرد کا بیان ہے اہمیت دیتے ہوئے ان دلائل کو پس پشت ڈال دو ہماری عقل وسمجھ تو یہی کہتی ہے کہ یقینا انہوں نے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی ۔ اگر عیسائی خطوط اس کا انکار کریں تو ان کے انکار پر ہم صاد نہیں کرسکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں مسیح (علیہ السلام) کے اکثر واقعات جس طرح اناجیل میں بیان کئے گئے ہیں وہ ایک نبی کے حالات نہیں ہو سکتے خصوصا آپ کی زندگی کے بیشتر واقعات کے ساتھ حیات وموت کے حالات جس طرح بیان کئے گئے ہیں قرآن کریم نے ان کی مکمل تردید کردی ہے ۔ جیسا کہ ہر نبی (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا کہ تعلیمات کو تسلیم کرنے والوں کے مقابلہ میں مخالفین ومعاندین کی تعداد ہی رہی یہی حال مسیح (علیہ السلام) کا بھی تھا جو پیچھے بیان کیا جا چکا یہی وجہ تھا کہ یہود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو بغض وعناد تھا اس نے اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرہ کی نگاہ سے دیکھا اور جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی طرح اس کو برداشت نہ کرسکے تو انکے سرداروں ‘ فقیہوں ‘ فریسیوں اور صدوقیوں نے ذات اقدس کے خلاف سازش شروع کی اور طے یہ پایا کہ اس ہستی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کی بجز اس کے کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ بادشاہ وقت کو مشتعل کرکے اس کو دار پر لٹکا دیا جائے ، انہوں نے بہت گہری سازش کی اور ان کی پست ذہنیت نے انکو ایسا اندھا کیا کہ وہ انجام اور نتیجہ کی فکر سے بےپرواہ ہو کر باوجود نفرت رکھنے کے وہ پیلاطیس کے دربار میں جا پہنچے اور عرض کیا ‘ عالی جاہ ! یہ شخص نہ صرف ہمارے لئے بلکہ حکومت کے لئے بھی خطرہ بنتا جارہا ہے اگر اس کا استیصال نہ کردیا گیا تو نہ ہمارا دین ہی صحیح حالت میں باقی رہ سکے گا اور نہ ہی حکومت آپ کے ہاتھوں میں رہ سکے گی کیونکہ ایک ہجوم اس کا گرویدہ ہوتا چلا جا رہا ہے وہ ہر اس گھات میں لگا ہے کہ عوام کی اس طاقت کے بل بوتے پر وہ قیصر اور آپ کی حکومت کو شکست دے کر بنی اسرائیل کا بادشاہ بن جائے ، اس شخص نے لوگوں کو صرف دنیوی راہ ہی سے گمراہ نہیں کیا بلکہ اس نے ہمارے دین تک کو بھی بدل ڈالا اور لوگوں کو بددین بنانے میں منہمک ہے لہذا اس فتنہ کا انسداد از بس ضروری ہے تاکہ بڑھتا ہوا یہ فتنہ جلد از جلد روک دیاجائے ، کافی گفت و شنید کے بعد پیلاطس نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ مسیح کو گرفتار کرلیں اور شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کریں ۔ بنی اسرائیل کے سردار فقیہہ اور کاہن یہ فرمان حاصل کرکے بیحد مسرور ہوئے اور فخر ومباہات کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے لگے کہ آخر ہماری سازش کارگر ہوئی اور ہماری تدبیر کا تیر ٹھیک نشانہ پر بیٹھا اور کہنے لگے کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی خاص موقعہ کا منتظر رہا جائے اور کسی خلوت اور تنہائی کے موقع پر اس طرح اس کو گرفتار کیا جائے کہ عوام میں ہیجان نہ ہونے پائے ، چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” پس سردار ‘ کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا کہ ہم کرتے کیا ہیں ؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کرلیں گے اور ان میں سے کا ئفا نامی ایک شخص نے جو اس سال سردار کاہن تھا ان سے کہا کہ تم نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو ۔ “ (یوحنا 11 : 40 تا 51) یہ اس مشورہ کا ذکر ہے جو بادشاہ کے پاس جانے قبل یہود کے درمیان ہوا اور یہ خطرہ ظاہر کیا گیا کہ اگر اس ہستی کو یونہی چھوڑ دیا گیا تو بادشاہ وقت کہیں سلطنت کے لئے خطرہ سمجھ کر رہی سہی برائے نام حکومت یہود کا بھی خاتمہ نہ کردے ۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) بھی اپنی قوم کے ان مشوروں سے بیخبر نہ تھے بلکہ وہ صورت حال سے مکمل طور پر آگاہ تھے اس لیے فراست نبوی نے سب کچھ بھانپ لیا ‘ اسی لئے انہوں نے بھی اپنے حواریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں اور کاہنوں کی معاندانہ سرگرمیاں تم سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ اب وقت کی نزاکت اور کڑی آزمائش وامتحان کی گھڑی کا قریب آنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے میں تم سے سوال کروں کہ تم میں وہ کون لوگ ہیں جو اس کفر وسیلاب اور ان سازشوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر اللہ کی دین کے ناصر و مددگار بنیں گے ؟ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان اقدس سے یہ ارشاد سن کر حواریوں نے بڑے جوش و خروش اور صداقت ایمانی کے ساتھ جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار اور خدائے واحد کے پرستار ۔ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم اور وفا شعار ہیں اور بارگاہ ایزدی میں دست بدعا بھی ہیں کہ اے پروردگار ! ہم تیری اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لے آئے اور صدق دل کے ساتھ تیرے پیغمبر کے پیرو ہیں اے اللہ ! اے ہمارے رب ! تو ہم کو صداقت وحقانیت کے فداکاروں کی فہرست میں لکھ لے ۔ چناچہ اس کا مختصر ذکر آپ سورة آل عمران اور سورة الصف کے حوالے سے پیچھے دیکھ چکے ہیں ۔ مختصر یہ کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے فریضہ دعوت وتبلیغ کے خلاف یہود بنی اسرائیل کی مخالفانہ سرگرمیوں سے متعلق حالات کا یہ حصہ تو اکثر وبیشتر ایسا ہے کہ قرآن کریم اور انجیل کے درمیان اصولا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے ما بعد کے پورے حصہ بیان میں دونوں کی قطعا جدا جدا رہیں ہیں اور ان کے درمیان اس درجہ تضاد ہے کہ کسی طرح بھی ایک کو دوسری راہ کے قریب نہیں لایا جاسکتا البتہ اس جگہ پہنچ کر یہود ونصاری دونوں کا ایک لحاظ سے باہمی اتحاد ہوجاتا ہے اور دونوں کے بیانات واقعہ سے متعلق ایک ہی نظریہ پیش کرتے ہیں فرق ہے کہ تو یہ کہ یہود اس واقعہ کو اپنا کارنامہ اور اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اور نصاری اس کو یہود بنی اسرائیل کی ایک قابل لعنت جدوجہد یقین کرتے ہیں ۔ یہود اور نصاری دونوں کا مشترک بیان یہ ہے کہ یہود کے سرداروں اور کاہنوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس وقت یسوع لوگوں کی بھیڑا سے الگ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک بند مکان میں موجود ہیں ‘ یہ موقع بہترین ہے اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے اور فورا ہی یہ لوگ موقع پر پہنچ گئے اور چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرلیا اور یسوع کو گرفتار کرلیا اور توہین وتذلیل کرتے ہوئے پیلاطیس کے دربار میں لے گئے تاکہ وہ ان کو سولی پر لٹکائے ۔ اگرچہ پیلاطیس نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بےقصور سمجھ کر چھوڑ دینا چاہا مگر بنی اسرائیل کے اشتعال پر مجبورا سپاہیوں کے حوالے کردیا ، سپاہیوں نے ان کو کانٹوں کا تاج پہنایا ‘ منہ پر تھوکا ‘ کوڑے لگائے اور ہر طرح کی توہین وتذلیل کرنے کے بعد مجرموں کی طرح سولی پر لٹکا دیا اور دونوں ہاتھوں میں میخیں ٹھونک دیں اور سینہ کو برچھی کی انی سے چھید دیا اور اس کس مپرسی کی حالت میں انہوں نے یہ کہتے ہوئے جان دے دی ، ایلی ایلی لما شبقتنی چناچہ اس کی تفصیل دیکھنا ہو تو متی کی انجیل کے باب 26 میں ورس 57 تا 75 کا مطالعہ کریں ۔ لیکن قرآن کریم نے یہودونصاری کے اس مشترک بیان کی نہایت دلیری کے ساتھ تردید کی اور صاف صاف لفظوں میں اپنے خاص انداز میں بیان فرمایا ” پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے ان سے بچایا ۔ “ (آیت) ” واذ کففت بنی اسرآئیل “۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ ” وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا کون ہے اللہ کی طرف بلانے میں میرا مددگار ؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا ” ہم ہیں اللہ کے مددگار ‘ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابہ میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے ۔ “ (الصف 61 : 14) اور ایک جگہ اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے صاف صاف لفظوں میں اس طرح فرمایا کہ : ” انہوں نے کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بیٹے مریم کے کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کردیا ہے حالانکہ فی الواقعہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر چڑھایا بلکہ یہ بات ہی ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اس کے وقت طبعی طور پر اپنی طرف اٹھایا ‘ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا ہے ۔ “ (النساء 4 : 158) تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی جلد سوم سورة النساء کی آیت 158 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔ قرآن کریم کے اس چیلنج کے بعد یہود ونصاری کو چاہئے تھا کہ وہ کوئی واضح دلیل پیش کرتے کیونکہ ان کی خاصی تعداد خود نزول قرآن کے وقت موجود تھی لیکن دلیل تب پیش کی جاتی اگر کوئی دلیل موجود ہوتی اور ایسے بےدلیلوں کے پاس جو دلیل موجود ہوتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ دیکھو سب لوگ ایسے ہی مانتے چلے آرہے ہیں اور یہی بات انہوں نے بھی کہی ، قرآن کریم بلاشبہ دوسروں کی گتھیاں سلجھانے کے لئے آیا تھا اور اس نے اپنا کام اس احسن طریقہ سے سرانجام دیا کہ کسی کو کچھ بھی نہیں اور حق بھی ان کے کانوں تک پہنچا دیا اور اپنا یہی فرض اس نے اس جگہ بھی ادا کیا ، اس نے صاف صاف بتا دیا کہ جس زمانہ میں بنی اسرائیل پیغمبر حق اور رسول خدا سیدنا عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیروں اور سازشوں میں مصروف اور ان نازاں تھے اسی زمانہ میں رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے قانون قضا وقدر کے مطابق یہ فیصلہ نافذ کردیا کہ کوئی طاقت اور مخالف قوت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) پر قابو نہیں پاس کی اور ہماری محکم تدبیر نے اس کو دشمن کے ہر مکروفریب سے محفوظ رکھا اور اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی حفاظت کے لئے اس نے واشگاف الفاظ میں کیا تھا ۔ آپ سن کر شاید حیران ہوں گے کہ اس وقت عیسائیت کے جتنے مذہبی عقائد اور رسمیں بتائیں جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی عقیدہ یا رسم وہ نہیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم سے اخذ کی گئی ہو یا آپ نے اس کو اپنی قوم میں بیان کیا ہو مثلا عیسائیت کے ابتدائی عقائد میں سے مسیح (علیہ السلام) کا بن باپ ہونا ‘ تثلیث کا تسلیم کرنا اور کفارہ کا ماننا ہے ۔ 1۔ پہلا عقیدہ مسیح (علیہ السلام) کا بن باپ پیدا ہونا ہے اور عیسائی صاحبان مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت پر ان کا بےباپ پیدا ہونے کی دلیل دیتے ہیں اور ان کی یہ دلیل نہایت ہی کمزور ہے اور ان کے مدعا کو پورا نہیں کرتی کیوں ؟ اس لئے کہ یہود ونصاری دونوں گروہوں کے ہاں آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) بےماں اور باپ تھے اور اسی طرح دونوں کے ہاں تسلیم یہ ہے کہ ملک صدق سالم بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے ۔ (عبرانیوں 7 : 2) اگر مسیح بغیر باپ کے پیدا ہونے سے خدائے مجسم ٹھہرتے ہیں تو آدم ‘ حوا اور ملک صدق سالم بھی خدائے مجسم ہوں گے لیکن عیسائی ان کو خدائے مجسم نہیں مانتے ۔ 2۔ دوسرا عقیدہ تثلیث کا ہے ۔ عیسائی مذہب میں تین اقانیم سے مرکب ہے باپ ‘ بیٹا اور روح القدس پھر کسی نے روح القدس کی بجائے ” کنواری مریم “ کو تسیرا اقنوم قرار دیا اور کسی نے پھر تین کو ایک اور ایک کو تین بنانے کے لئے سارا زور صرف کیا گیا لیکن ایک نہ ہونے والی بات کا ہونا کیونکر ثابت کیا جاسکتا ہے سوائے ہٹ دھرمی کے اور اسی سے کام لیا گیا ۔ 3۔ کفارہ کا عقیدہ بھی موجودہ عیسائیت کی عبادت کا بنیادی پتھر ہے ، مقصد اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان پیدائشی گناہ گار ہے ۔ آدم اور حوا نے جو گناہ کیا وہ وراثتا ہر شخص کی فطرت میں چلا آرہا تھا اللہ نے مسیح کو بےباپ پیدا کرکے ان گناہوں سے پاس کردیا پھر اپنے بیٹے کو صلیب پر لٹکا کر ساری دنیا کے انسانوں کے گناہوں کو صاف کردیا جو صلیب کو تسلیم کرلیں ، اس عقیدہ کے تحت ساری اولاد آدم مع انبیاء کرام جو عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ہوئے گناہگار ٹھہرتے ہیں اور کوئی بھی ان میں سے جنت کا مستحق نہیں ٹھہرتا حالانکہ عیسائی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ عیسائیت کی مذہبی رسومات میں سے بپتسمہ یعنی اصطباغ اور عشاء ربانی سرفہرست ہیں اور باقی سب رسومات کا درجہ ان کے بعد رکھا گیا ہے ۔ پہلی رسم عیسائیت میں داخل ہونے کے لئے ایک غسل کیا جاتا ہے جس کا طریقہ خاص ہے جس سے انسان گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے اور دوسری رسم عیسائیت کے داخلہ کے بعد ادا کی جاتی ہے جس میں ایک خاص طرح کی روٹی اور مشروب ہے جس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور اس رسم کی ادائیگی کے بعد وہ آدمی عیسائی مذہب میں داخل سمجھا جاتا ہے ۔ عیسائی عقائد کا پر تو جو مسلم قوم پر ہوا وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بےپدر پیدائش کا ہے اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا کیونکہ ہم مسلمانوں میں بھی یہ دونوں نظریات سختی سے منوائے جاتے ہیں اور جو ان کا قائل نہ ہو اس کو سخت مطعون کیا جاتا ہے لیکن ان دونوں نظریات کی اصل بنیاد اسلام نہیں بلکہ وہی عیسائیت ہے ، پھر یہ دونوں نظریات استدلال واستنباط سے تعلق رکھتے ہیں نص قطعی سے نہیں لیکن عیسائیت کی نقل میں استدلال کو نص قطعی قرار دے لیا گیا ہے تشریح اپنے موقع پر آئے گی ۔ 4۔ ایسٹر کا تہوار بھی مبارک رسم ہے ‘ بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر جانے کے بعد تیسرے دن 21 مارچ بروز اتوار زندہ ہوگئے تھے ۔ اسی لئے احیائے ثانیہ کی خوشی میں عیسائی 21 مارچ یا اس کے بعد پہلے اتوار کو ایسٹر کا تہوار مناتے ہیں ۔ 5۔ کرسمس کی رسم ۔ کرسمس ڈے ‘ 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے ، عیسائی اس تاریخ کو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا دن قرار دیتے ہیں لیکن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے متعدد مر کر زندہ ہونے والے دیوتاؤں کی ولادت بھی چونکہ اسی تاریخ میں ظاہر کی جاتی تھی عیسائی راہبوں نے عیسائیت کو دوسری اقوام میں مقبول بنانے کے لئے ان کے نظریات اور مصطحات کو اپنے مذہب میں داخل کرلیا اور بعد میں وہ پکے ہوگئے ۔ ان عقائد ورسومات کا مختصر ذکر بطور اشارات کیا ہے تاکہ قارئین اپنے اسلام کا موازنہ ان کو سامنے رکھ کر کرسکیں عیسائیت کی تاریخ اس قدر تاریک ہے اور ان کے ہاں دین و مذہب کے نام پر اس قدر مظالم ہوچکے ہیں کہ آج ان کو دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے ، مختصر یہ کہ آج کل قوم مسلم میں کتنی رسومات ہیں جو دین کے نام سے ادا کی جاتی ہیں لیکن ان کی اصلیت دین اسلام میں نہیں بلکہ عیسائیت اور ہنود کے ہاں ملتی ہے فقط ان کے نام بدلے گئے ہیں جو کچھ ہندوؤں کے بارے میں برہمن کرتے تھے اور عیسائیوں کے راہب وپادری ‘ آج وہی اسلام کے نام سے ملانے اور پیر ادا کر رہے ہیں یہ تیسرا ‘ چوتھا ‘ ساتواں ‘ دسواں اور چالیسواں اور اسی طرح یہ فاتحہ خوانیاں اور درودوں کے ورد کی رسومات اپنے نام بدل کر وہی سے اسلام میں داخل کی گئیں ہیں ۔ اعادہ کے طور پر چند باتیں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے متعلق یاد رکھنے کی ہیں جن کو اپنے ذہن و دماغ میں جگہ دینا ضروری ہے کیونکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی ورسول ہیں اور بنی اسرائیل کے سلسلہ کے خاتم النبیین ہیں یعنی بنی اسرائیل میں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔ 1۔ دوسرے رسولوں کے مقابلہ میں یحییٰ (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو کم عمری میں اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرما دی تھی لیکن مفسرین کی تشریح کے مطابق ان میں سے کسی کی بھی عمر نبوت دیئے جانے کے وقت تیس سال سے کم نہیں تھی۔ 2۔ دونوں نبیوں کو تقریبا ایک جیسے حالات پیش آئے اور زمانہ بھی دونوں کا ایک ہے البتہ یحییٰ (علیہ السلام) ، سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے ہیں اور آپ کی نبوت و رسالت کے مناد بھی ہیں ۔ 3۔ دونوں نبیوں کے واقعات بیان کرتے وقت ان کی پیدائش کے بعد اور ان کی نبوت دیئے جانے کے وقت تک درمیان کے حالات کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور مفسرین نے اس معاملہ میں حدود سے بہت تجاوز کیا خصوصا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق چونکہ عیسائیوں کے نظریات میں بہت افراط سے کام لیا گیا تھا لیکن ان کا پر تو مفسرین اسلام پر بھی ایک حد تک خاصا گہرا ہوا اور آج دونوں کے نظریاں میں افراط پایا جاتا ہے اور یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے ۔ 4۔ دونوں نبی سیدنا اسحاق (علیہ السلام) اور سیدنا اسمعیل علیھما السلام کی طرح مبشر تھے جن کی خوشخبری ان کے جنم سے ایک عرصہ پہلے دی گئی اور دونوں نبیوں کے صاف صاف لفظوں میں اوصاف بتائے گئے کہ وہ نبی ہوں گے اور ان ان معاملات میں ان کو یہ یہ خصوصیت حاصل ہوگی اور ایک عرصہ تک زندہ رہیں گے جس میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیات میں ان کی مشہور آیات بینات کی بھی وضاحت کردی گئی گویا ان کی زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا تھا ان کی پیدائش سے ایک عرصہ پہلے ان کی والدہ ماجدہ کو القاء کیا گیا جس کی وضاحت سورة آل عمران میں موجود ہے ۔ 5۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ سال کی عمر میں ہی اپنی قوم کے بزرگوں سے اسی طرح کے سوالات کرنے شروع کردیئے کہ وہ ان کے جو اباتنہ دے سکتے تھے اور اس کے مقابلہ میں قوم کے بڑے بڑے احباب و رہبان جو سوالات کرتے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے فورا جواب دے کر ان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ، اس سے یہود کے قومی رہنمائوں کو آپ پر بہت غصہ آتا اور وہ ان کو گستاخ قرار دیتے ۔ 6۔ بارہا قوم کے ان بزرگوں نے سیدہ مریم (علیہ السلام) سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکایت کی کہ یہ ایسی ایسی باتیں کرکے ہماری توہین کا مرتکب ہوچکا ہے اس کو تم ہی سمجھاؤ کہ یہ ان باتوں سے باز آجائے ورنہ اس کی خیر نہیں ہے ۔ 7۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) ہمیشہ اپنے قومی بزرگوں کی باتیں سن کر ان کو مشورہ دیتیں اور اشارہ کرتیں کہ تم مجھے کیوں کہتے ہو جو تم سے باتیں کرتا ہے وہ خود موجود ہے اس سے بات کرو جس سے قوم کے بزرگ ووڈیرے بہت زک ہوتے اور شرمندگی محسوس کرتے ہوئے سیدہ مریم (علیہ السلام) سے کہتے کہ ہم اس بچے سے بات کریں تو آخر کیوں ؟ کیونکہ بچوں کو سمجھانا والدین ہی کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن اس سے ہمارے مفسرین نے بات کا خوب بتنگڑ بنایا اور ہوتے ہوتے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ 8۔ یہود نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بہت برے الفاظ سے یاد کیا اور آپ پر طرح طرح کے الزام تراشے لیکن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے مواعظ میں ان کی خوب خبر لی اور ان کے فریسیوں اور فقیہوں کو نادان ‘ احمق ‘ حرام خور اور فاسق وفاجر قرار دیا اور زور وشور سے ان کی مخالفت میں کمر بستہ رہے ۔ 9۔ یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکایت حکومت وقت کے سامنے کی اور حکومت کو ہر ممکن اکسایا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑے اور سزائے موت دے لیکن وہ اپنے ان موقف میں کامیاب نہ ہو سکے ، نہ خود انہوں نے قتل کیا اور نہ ہی حکومت سے قتل کی سزا دلوا سکے ، جب تک اللہ کو منظور تھا وہ زندہ رہے اور تبشیر وتنذیر کے کام میں مصروف رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق اپنے وقت پر انہیں وفات دی ۔ 10۔ یہودیوں نے ایک مدت کے بعد جب پہلی نسلیں دنیا سے اٹھ گئیں نہ آپ کے ماننے والے رہے نہ مخالف تو ایک نیاشوشہ کھڑا کیا وہ شوشہ یہ تھا کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر پھانسی دی اور بہت بری موت مارا ان کے ماننے والے یہودیوں نے صلیب دیا لیکن اس صلیب دیئے جانے کی عجیب تاویل تلاش کی کہ وہ انسانیت کے گناہوں کے ازالہ کے لئے سولی پر چڑھے اور تیسرے روز زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے اور اس نظریہ کو انہوں نے یہودیوں کی مخالفت میں اتنی ہوا دی کہ اعتدال سے آگے ہی نکلتے چلے گئے ۔ 11۔ جب فریقین یعنی یہودونصاری ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئے تو جن جن باتوں میں یہود نے الزام تراشے انہی باتوں میں نصاری نے افراط سے کام لینا شروع کیا اور جہاں یہود نے تفریط کی وہاں نصاری افراط کرنے لگے مثلا یہود نے آپ کو ولد الحرام کہا تو عیسائیوں نے بےپدر کہہ کر آپ کے باپ سے انکار کیا اور باپ کی جگہ جبریل (علیہ السلام) کو لا کر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ناپاک نطفہ انسانی سے مستثنی کرتے ہوئے اللہ کا بیٹا قرار دیا ، یہود نے ایک سچا انسان ماننے سے انکار کیا تو عیسائیوں نے آپ کو اللہ ‘ اللہ کا بیٹا اور اللہ تعالیٰ کا جزء ثالث قرار دیا ، یہود نے لعنتی موت مارنے کا بیان دیا تو عیسائیوں نے زندہ کرکے آسمان پر چلے جانے کی کہانی بیان کی اور باپ کی داہنی جانب لے جا کر بیٹھا دیا ۔ 12۔ روایات میں اتنا تضاد کیوں اور کیسے ؟ زیادہ تعجب کی کوئی ضرورت نہیں آپ اپنے ہاں سیدنا علی ؓ کے متعلق اور حسین ؓ کے متعلق جو کہانیاں پڑھتے ہیں اور اہل تشیع جو کچھ سیدنا علی ؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ ” علی اللہ “ تک کہہ دیتے ہیں اور جس طرح کے القاب سے نوازتے ہیں اور علی کا پہلا نمبر قرار دیتے ہیں آخر مبالغہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اہل سنہ ” چار یار “ کے متعلق صحیح عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اہل تشیع اصحاب ثلاثہ کے متلق جس تفریط سے کام لیتے ہیں وہ یہود کی نقالی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات اور مسیح مہدی کی آمد اور بارہویں امام کے غائب ہونے کی کہانی جو بیان کی جاتی ہے وہ کیا ہے ؟ چلئے ان واقعات کو ایک مدت ہوئی اور بعد میں ان واقعات میں حاشیہ آرائیاں ہوئی ہوں گی لیکن اس ملک کو تقسیم ہوئے کتنی مدت ہوئی ۔ قائد اعظم (رح) ‘ لیاقت علی خان (رح) سے شروع ہو کر سہروردی ‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق تک کتنے لوگوں کی موت اور حیات ایک معمہ بن رہ گئی ہے یا نہیں ؟ پھر جن شخصیتوں کے متعلق دو فریق بن گئے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں بیان کرتے آخر ان میں حقیقت کیا ہے اور مبالغہ کیا کیا اور کہاں کیا وضاحت ہوچکی ہے ، اس لئے جوں جوں وقت گزرتا جائے گا حالات دونوں طرف سے پہلے سے زیادہ کشیدہ ہوتے جائیں گے حتی کہ ایک شخص کے متعلق مختلف نظریات قائم ہوجائیں گے بالکل یہی حالات اسی وقت ہوئے اور آج تک ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ 13۔ اس جگہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بات ہو رہی ہے تو اس سلسلہ میں اتنی بات اسلام میں ایمان کا جزء قرار پاتی ہے کہ ہر مسلمان سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ اور رسول تسلیم کرے اور ان کی نبوت پر ایمان لاتے ہوئے آپ کو کلمہ اللہ اور روح اللہ کے القابات سے ملقب جانے اور آپ کنیت ابن مریم تسلیم کرے اور یقین جانے کہ ان کی یہ کنیت اسلام سے پہلے بھی قائم تھی اور اسلام نے بھی اسے قائم رکھا ۔ 14۔ بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں جن کو ان کے زمانہ میں باپ کے علاوہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور ماں سے انکی کنیت چلی اور وہ آج تک اسی طرح کتب اسلامی میں یاد کئے جاتے ہیں جو صحابہ ‘ تابعین اور تبع تابعین میں تھے اور آج بھی کتنے ہیں جن کو ان کی ماؤں کے نام یاد کیا جاتا ہے ، کتب احادیث میں سے چند نام تحریر کئے جاتے ہیں تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے مثلا ابن ام مکتوم ، ابن الحنطیلہ ‘ ابن الکواء ‘ ابن بیضاء ابن مرجانہ ‘ ابن الحنفیہ ‘ ابن عفراء ابن ام ایمن ، ابن ماجہ وغیرہ اور اسی طرح کے اور بھی بہت سے نام ہیں جو بیان کئے جاتے ہیں اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں اور اس وقت بھی جن لوگوں کی ماؤں کی عرف ان کے باپوں سے زیادہ ہو وہ ماؤں کے نام سے بلائے اور پکارے جاتے ہیں جس کی مثالیں ہر دہ ‘ ہر بستی اور تقریبا ہر خاندان میں ملتی ہیں ۔ 15۔ کتنی باتیں ہیں جن کا تصفیہ ہونا ضروری نہیں کہ اگر ہم کسی آخری تصفیہ تک نہ پہنچے تو ہمارا کوئی نقصان ہوگا ان باتوں کو موضوع بحث بنا کر بحث کرتے رہنا وقت ضائع کرنا ہے ، اس لئے ان پر سکوت کرنا ہی زیادہ موزوں ہے ہاں اپنی تفہیم جس طرح ہوچکی ہے یا جو تبدیلی اس میں آئی ہے اس کو اپنے تک محدود رکھتے ہوئے کسی سے ذہنی الجھاؤ مت رکھئے اور اس کو کسی عقیدہ کی بنیاد نہ بنائے کیونکہ عقیدے متعین باتوں کو کہا جاتا ہے جس میں تبدیلی کسی حال میں بھی جائز نہیں اور جن کی وضاحت کتاب وسنت میں آچکی ہے کوئی عقیدہ استنباط کرکے بیان نہیں کیا جاسکتا ، جن چیزوں کے متعلق ہم سے آخرت میں سوال نہیں ہوگا وہ یقینا عقیدہ سے متعلق ہی نہیں ۔ 16۔ گزشتہ کتب یعنی تورات واناجیل کا بہت ساحصہ قرآن کریم میں محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوچکا وہ یقینا حق ہے لیکن جو دنیا میں تورات کے نام سے اور اناجیل کے نام سے کتب موجود ہیں ان کی حیثیت تاریخی ہے ان میں بہت سے مضامین صحیح بھی ہیں اور کتنی ہی باتوں میں تحریف بھی ہوچکی ہے اور ان کی اصل زبان اور اصل متن بھی دنیا میں موجود نہیں لہذا تاریخی نوعیت سے اس کا ماننا اور اس سے استفادہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن جو باتیں قرآن کی تعلیمات کے مخالف ہیں وہ یقینا بعد کا اضافہ شدہ ہیں اس سے انکار لازم ہے ۔ 17۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اور اسی طرح یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق تحدی سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان دونوں نبیوں نے شادیاں نہیں کیں اور یہ ساری زندگی مجرد رہے یا ان کی شریعت میں مجرد رہنا کوئی ثواب کا عمل تھا بلاشبہ یہ سارے بعد کے تخیل ہیں اور وہیں سے وہ ہمارے ہاں بھی آگئے ہیں بلکہ قرآن کریم نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ “۔ (13 : 38) کہہ کر کسی نبی اور رسول کو ازدواجی زندگی یا بالکل اولاد کے ہونے سے مستثنی نہیں کیا کہ فلاں کی بیوی نہ تھی یا وہ مجرد ہی رہا یا فلاں نے شادی تو کی لیکن اس کے اولاد بالکل نہیں ہوئی ، اور پھر یہ بھی کہ خوشخبری دیئے گئے رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ آگے نہ چلنا اور والدین کی مانگی ہوئی امنگوں کے مطابق اولاد کا نہ ہونا طبیعت اس کو تسلیم نہیں کرتی اور والدین کی فطری خواہش بھی ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ میری اولاد در اولاد کا یہ سلسلہ جاری رہے لیکن اصل حالات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کا سلسلہ کہاں تک قائم رہنا ہے اور کہاں جا کر اس کو منقطع ہوجانا ہے ، احادیث میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے شادی کرنے اور اولاد کے ہونے کا ذکر بھی آیا ہے اور کہاں جا کر اس کو منقطع ہوجانا ہے ، احادیث میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے شادی کرنے اور اولاد کے ہونے کا ذکر بھی آیا ہے اگرچہ اس کو لوگوں نے دوبارہ آمد پر محمول کیا ہے ۔ 18۔ اگر آپ نے یہ باتیں یاد رکھیں اور انکو ایک سے زیادہ دفعہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی اور سرسری نظر سے دیکھ کر آگے نہ نکل گئے تو انشاء اللہ یہ باتیں ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اور باقی نبیوں اور رسولوں کے متعلق حقیقت سمجھنے میں مدد دیں گی ، اللہ تعالیٰ آپ کا اور ہمارا حامی وناصر ہو اور ہم سب کو سچائی کرنے اور اسی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔ اے پیغمبر اسلام ! ال کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کرو کہ وہ سچا نبی تھا : 41۔ زیر نظر سورة یعنی سورت مریم کا اصل مضمون عیسائیت پر اتمام حجت ہے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر بھی اسی نسبت سے آیا ہے کہ آپ یہود ونصاری کے تسلیم شدہ انبیائے کرام (علیہم السلام) میں سے ایک ہیں بلکہ ان سارے انبیائے کرام (علیہم السلام) اور رسل عظام کے جدامجد ہیں جن کو یہود ونصاری نے نبی ورسول تسلیم کیا ہے اور انہی رسولوں میں سے ایک رسول عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کا رتبہ تو بہت بلند واعلیٰ ہے اور ان کو نبی ماننے والے یہود بھی ہیں اور اس وقت کے سارے عیسائی بھی اور پھر ان دونوں فرقوں سے بڑھ کر خود قریش مر کہ بھی جو نبی اعظم وآخر ﷺ کی قوم بھی تھی اور خاندان بھی اور بعد میں خود نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس بھی جن کے جد اعلی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور آپ نے اپنی امت کو بھی ملت ابراہیمی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، اسی لئے ان سب کی توجہ اس عظیم شخصیت کی طرف دلائی گئی کہ اس کتاب میں اے پیغمبر اسلام سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر بھی ان کو سناؤ اس پر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی صفت صدیقیت کو خاص کر ذکر کیا گیا حالانکہ یہ ایک حقیقت ثانیہ ہے کہ کوئی نبی بھی غلط بیانی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی جھوٹا ہوتا ہے بلکہ یہ ہر نبی ہر حال میں سچا ہوتا ہے پھر خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ اس میں حکمت یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ان بزرگ نبیوں میں سے ایک ہیں جن پر ان کے ماننے والوں نے جھوٹ کا الزام لگایا اور ایسے سلجھئے ہوئے انداز میں لگایا کہ ہر آنے والی جماعت میں اس کو پکارنے کے لئے اس پر ردے کے ردے رکھتی رہی اور انجام کار یہ کہ قرآن کریم کو آپ کی سچائی کا اعلان کرنا پڑا تاکہ اب تو جھوٹ کا الزام لگانے والے شرمندہ ہوں کہ قرآن کریم نے ان کے بیان کی واضح والفاظ میں تردید کردی ہے لیکن آپ کو بھی تعجب ہوگا کہ قرآن کریم نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ (آیت) ” انہ کان صدیقا نبیا “۔ بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) سوفیصد سچا نبی تھا یعنی سچائی میں وہ ضرب المثل تھا لیکن بدقسمتی سے امت کے لوگوں نے پھر آپ کو تین جھوٹوں کا الزام دے ہی دیا ، پھر تعجب پر تعجب یہ کہ خود ہی الزام دیا اور خود ہی اس کو صاف کرنے کے لئے صفحات پر صفحات تحریر کئے اور کوشش کی کہ آپ کا کہنا بالکل صحیح تھا ، ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ صحیح بخاری ومسلم میں حدیث موجود تھی کہ لم یکذب ابراھیم النبی (علیہ السلام) قط الا ثلث کذبات (بخاری شریف جلد دوم ص 301) پھر اس حدیث کی صحت کو درست کرنے کے لئے قرآن کریم کی قطعی نص کی ایک سے زائد طریقوں سے تاویل شروع کردی ، حالانکہ بات بالکل صاف تھی کہ مسلمانوں سے مخاطب ہو کر نبی اعظم وآخر ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ عیسائیوں کا حال دیکھو اور یہود کے حال پر غور کرو کہ وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول بھی مانتے ہیں اور ان کے متعلق تین جھوٹ بھی منسوب کرتے ہیں اور پھر جو تین جھوٹ گنوائے گئے ان میں سے دو کو قرآن کریم نے ذکر کیا اور ثابت کیا کہ یہ جھوٹ جھوٹ ہی نہیں تھے اگر فی الواقعہ بات یہی ہے تو یہ جھوٹ کہنے والوں نے خواہ مخواہ کا الزام تراشا ہے اور ایک کا ذکر بھی قرآن کریم نے نہیں کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی اور یہ بھی کہ جس طرح وہ واقعہ تورات اور احادیث کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ تورات کے من گھڑت واقعہ کو اس غرض سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔ یہ اجمالی جواب ہے اور تفصیل اس کی انشاء اللہ سورة الانبیاء میں آئے گی اور وہیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا مختصر اور مسلسل حال بھی بیان کیا جائے گا ۔
Top