Urwatul-Wusqaa - Maryam : 55
وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا
وَكَانَ يَاْمُرُ : اور حکم دیتے تھے اَهْلَهٗ : اپنے گھروالے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے ہاں مَرْضِيًّا : پسندیدہ
اور وہ اپنے گھر کے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ اپنے پروردگار کے حضور پسندیدہ تھا
سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) رضائے الہی کا متلاشہ اور اپنے لوگوں کو صلوۃ وزکوۃ ادا کرنے کی ہدایت کرتا تھا : 55۔ سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) کا دوسرا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ خود توصلوۃ وزکوۃ کے عادی تھے اور اپنے اہل و عیال کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ نماز ادا کریں اور زکوۃ ادا کریں ، اس کا طریقہ ونصاب کچھ بھی ہو لیکن ان دونوں چیزوں کا تصور ہر نبی کی قوم میں پایا جاتا ہے کیونکہ ہر نبی ورسول کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے پیغام میں ان دونوں چیزوں کی سختی سے پابندی کریں اور اللہ کی رضا مجھ پر ایمان لانے والوں کا امتیازی نشان ہونا چاہئے اور صلوۃ وزکوۃ ہی وہ چیز ہے جو تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ایک جامع تعبیر ہے اور انہی دو چیزوں پر پہلے بھی اور آج بھی تمام شرائع کی بنیاد ہے جس نے ان دونوں چیزوں کا اہتمام کرلیا اس نے بحمد للہ دین و شریعت کو قائم کرلیا اور جس نے ان دونوں چیزوں میں کوتاہی کی اس نے دین و شریعت کو برباد کیا یہ تو قرآن کریم کی تعبیر ہے لیکن ہم مسلمانوں کا عملی حال اس وقت کیا ہے ؟ کیا ان دونوں چیزوں پر ہمارا ایمان ہے ؟ اگر ہے تو کس نوعیت کا ؟ اگر کہیں کچھ نظر آتا بھی ہے تو وہ ایک رسم اذاں اور رسم صلوۃ کے سوا بھی کچھ ہے ؟ آج ہم مسلمانوں کو اپنا اور اپنی قوم کا تجزیہ کرکے دیکھنا چاہئے کہ مجموعی طور پر ہمارا حال کیا ہے ؟ کیا ایسی صورت تو نہیں کہ ۔ ع مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے ۔ اور جس چیز کے لئے خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے جنگ لڑنے کی دھمکی دی تھی اس کو ہم نے سرے سے ہی بھلا دیا کوئی سختی کے ساتھ ہم سے کچھ چھنی لے جائے وہ دوسری بات ہے لیکن ہم اپنی رضا اور اپنی مرضی سے زکوۃ ادا کرنے والے نہیں ہاں ! ہمارے کروڑ پتیوں کو اگر کسی صورت اور سبب سے زکوۃ مل جائے تو وہ ہڑپ کرنے کے لئے آگے بڑھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائیں ، اگر دل یقین نہ کرے تو زکوۃ کمیٹیوں کا تجزیہ کر کے ذرا دیکھ لیں اور ایک چھوٹے سے یونٹ سے لے کر صوبائی کمیٹیوں تک دیکھتے چلے جائیں کہ ان کے چیئرمین زکوۃ وعشر کے نمائندے کون لوگ ہیں ؟ اور وہ بندر بانٹ کس طرح کرتے ہیں اور زکوۃ کا مال کس کس کی جیب میں جاتا ہے ؟ کس طرح جاتا ہے اور کتنا جاتا ہے ؟ پھر زکوۃ وصول کرنے والوں کو بھی ایک نظر دیکھ لیں تو یقینا آنکھیں کھلی کی کھلی جائیں کہ یا اللہ ! یہ تیرے مومن بندے ہیں ؟ اور اگر یہ عہدے اور چیئرمینیاں تقسیم ہوتے دیکھ لیں تو واللہ اس جینے سے مرنے کو ترجیح دیں اگر ذرا بھر بھی ایمان کی رمق دل میں موجود ہو ۔ سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد خداوندی اس طرح بھی ہے کہ (وکان عند ربہ مرضیا) اور وہ اپنے رب کی نگاہوں میں ایک ایسا ہی بندہ تھا جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ ایسا ہو۔ بلاشبہ اس نے جو کیا محض رضائے الہی کے لئے کیا ، کیا سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) ذبیح ہوئے ؟ بلاریب ذبیح ہوئے لیکن فرمانبرداری کی چھری سے ، ان کی گردن کٹی لیکن رضائے الہی کی چھری سے لیکن یہود ونصاری نے سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) کی زندگی پر اس طرح پردہ ڈال دیا کہ کسی کو ان کا سراغ ہی نہ مل سکے اور جنہوں نے ان کی زندگی کا حال بیان کیا انہوں نے حقیقت کو مسخ کرنے کی بہت کوشش کی ، اپنوں نے ناسمجھی سے اور بیگانوں نے جان بوجھ کر محض مخالف اور ہٹ دھرمی سے ۔ انشاء اللہ العزیز سورة الانبیاء میں مزید بات ہوگی ‘ اگر اللہ چاہے گا ۔ وما فوفیقی الا باللہ ۔
Top