Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 111
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ يَدْخُلَ : ہرگز داخل نہ ہوگا الْجَنَّةَ : جنت اِلَّا : سوائے مَنْ کَانَ : جو ہو هُوْدًا : یہودی اَوْ نَصَارٰى : یا نصرانی تِلْکَ ۔ اَمَانِيُّهُمْ : یہ۔ ان کی جھوٹی آرزوئیں قُلْ : کہہ دیں هَاتُوْا : تم لاؤ بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
وہ کہتے ہیں کہ جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی یا عیسائی نہ ہو ، یہ ان کی امنگیں اور آرزوئیں ہیں ، تم ان سے برملا کہو کہ اگر تم سچے ہو تو ثابت کرو اور بتاؤ کہ تمہارے اس دعوے کی دلیل کیا ہے ؟
کیا جنت حاصل کرنے کے لئے کسی گروہ کا قلادہ پہننا ضروری ہے ؟ 208: جنت کا تصور چونکہ ہر مذہبی تحریک کی جان رہا ہے اور اب بھی ہے۔ جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا اسی وقت اس کو جنت سے روشناس کرا دیا گیا۔ پھر انسان کا رخ جس طرف بھی پھرا ، اس کا یہ تصور بھی ماند نہیں پڑا۔ یہود و نصاریٰ دونوں نے دین کی اصل حقیقت کو فراموش کر کے مذہب کے نام پر ایک قومیت بنا لی تھی اور پھر ان میں سے ہر ایک اپنی ہی قوم کے جنتی اور مقبول ہونے اور اپنی سوا تمام اقوام عالم کے دوزحی اور گمراہ ہونے کا معتقد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قوموں کی جہالت و گمراہی کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں قومیں جنت میں جانے کے اصل سبب سے غافل ہیں۔ محض مذہب کے نام کی قویت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب یہود ہو ، نصاریٰ ہو یا اسلام ، ان سب کی اصلی روح دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ دل و جان سے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا عقیدہ و مذہب سمجھے۔ چاہے یہ کسی مذہب میں حاصل ہو۔ حقیقت دین و ملت کو فراموش کر کے یا پس پشت ڈال کر یہودیت ، یا نصرانیت کو اپنا معتقد بنا لینا دین و ملت سے ناواقفیت اور گمراہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جنت میں جانے کے لئے صرف یہ بات کافی نہیں کہ کوئی آدمی اپنے دل سے اللہ کی فرمانبر داری کا قصد تو درست کرلے مگر اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت کے طریقے اپنے ذہن و خیال کے مطابق گھڑ لے حالانکہ یہ ضروری ہے کہ عبادت و اطاعت اور امتشال امر کے طریقے بھی وہی اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ بتائے اور متعین کئے ہوں۔ پہلی بات ” بَلٰى 1ۗ مَنْ اَسْلَمَ “ کے ذریعے اور دوسری بات ” وَ ہُوَ مُحْسِنٌ “ کے ذریعے واضح کی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کے نجات اخروی اور دخول جنت کے لئے صرف قصد اطاعت کافی نہیں بلکہ حسن عمل بھی ضروری ہے اور حسن عمل کا مقصد وہی تعلیم و طریقہ ہے جو قرآن کریم اور سنت خیر الانام ﷺ کے مطابق ہو۔ جو شخص ان بنیادی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کو چھوڑ دے خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی یا مسلمان اور پھر محض نام کی قومیت کے زعم میں اپنے آپ کو جنت کا ٹھکیہ دار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اللہ کے نزدیک کوئی بھی ان ناموں کا سہارا لے کر فریب نہیں ہو سکتا نہ مقبول بن سکتا ہے جب تک اس میں ایمان و عمل صالح کی روح موجود نہ ہو۔ پھر اصول ایمان تو ادلنے بدلنے والی چیز نہیں تھی نہ وہ پہلے بدلے اور نہ اب بدلے گئے۔ لہٰذا وہ اصول ہر شریعت کے زمانے میں مشترک و یکساں رہے ہیں البتہ عمل صالحہ و مقبول کی شکل و صورت کچھ ادلتی بدلتی رہی ہے۔ تورات کے زمانہ میں عمل صالحہ وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کی تعلیم کے مطابق تھا انجیل کے دور میں عمل صالح یقیناً وہی تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی تعلیم کے مطابق تھا ۔ اور اب قرآن کریم کے زمانہ میں وہی عمل صالح کہے جانے کے قابل ہے جو نبی کریم ﷺ کے فرمان اور ان کی لائی ہوئی کتاب کی ہدایت کے مطابق ہوگا۔ ہاں ! اب قیامت تک اس کی صورت یہی رہے گی وہ کبھی نہیں ادلے بدلے گی کیونکہ رسالت و نبوت کا دروازہ بند ہوگیا اور اس راہ کے سوا کسی اور راہ سے آنے والا عمل صالح نہیں ہو سکتا۔ جنت کا مدار کسی کی آرزئوں پر نہیں : 209: یہود کی صدا یہ تھی کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا اور عیسائیت کی صدا یہ تھی کہ جنت کے داخلہ کے لئے عیسائی ہونا ضروری ہے اور پھر یہ کہ عیسائی اس کو کہا جائے گا جو کفارہ کا مذہب اختیار کرے گا۔ ان دونوں گروہوں کے اس قول کو ” امانی “ یعنی آرزو یا دعویٰ باطل قرار دیا۔ لیکن کسی زور سے نہیں صرف کہہ دینے سے بھی نہیں بلکہ ان دونوں سے ان کے دعویٰ پر دلیل طلب کی۔ دلیل وہ پیش نہ کرسکے ان کو کہا گیا۔ کہ اسلام جس سچائی کا نام ہے اس میں تو کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے قبول نہیں ہوتا۔ اسلام جو دعویٰ کرتا ہے اس پر دلیل پیش کرتا ہے اور اسی طرح کوئی بھی دوسرا جب اسلام کے مقابلہ میں اپنی سچائی بیان کرتا ہے تو وہ اس سے اس سچائی کی دلیل طلب کرتا ہے۔ تم دونوں جنت کے دعویٰ دار ہو لیکن قومیت کے سہارے سے اسلام پوچھتا ہے کہ اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے ؟ لیکن توریت نے کہاں یہ بتایا ہے کہ نجات یہودیت کے لئے خاص ہے۔ اور اسی طرح وہ عیسائیوں سے کہتا ہے کہ انجیل میں کہاں یہ عقیدہ تحریر ہے کہ نجات کے لئے عیسائی ہونا لازم ہے اور عیسائی کی نشانی یہ کہاں ہے کہ وہ کفارہ کو تسلیم کرے ؟ یہ دونوں مذاہب جب اس کا جواب نہ دے سکے تو ” ڈوبتے کو تنکے کا سہارا “ کے طور پر انہوں نے کہہ دیا کہ یہ بات جو تم کرتے ہو یہ تو سراسر عقل کی ہے اور مذہب میں تو عقل کو دخل ہی نہیں ہے تم جو بات کرتے ہو عقل کے سہارے کرتے ہو اور جو عقل کے سہارے پر بات کرے مذہب اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام اگر عقل کا سہارا لیتا ہے تو ہم اسلام کو کوئی مذہب ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے مذہب صرف دو ہی ہیں یہودیت یا عیسائیت جو عقل کے سہارے سے آزاد ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ مذہب دعویٰ کا نام نہیں بلکہ طریق عمل کا نام ہے اور جنت میں وہی داخل ہوا گا جو اس طریق عمل کو اختیار کرتا ہے جو جنت تک پہنچانے والی ہے۔ اس طرح اسلام نے ایک مسلمان کو تو یہ سمجھایا کہ نرا دعویٰ اسلام بھی جنت تک نہیں پہنچتا جب تک وہ اس طریق پر چلنے کے لئے پوار زور نہ لگائے۔ جو اسلام نے بتایا ہے اور دوسرے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ وہ طریق عمل جو اللہ تک پہنچتا ہے وہ تم میں باقی نہیں رہا لہٰذا تمہارا مذہبی دعویٰ ہی سراسر باطل ہے لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے بھی وہی نظریہ قبول کرلیا جو قبل ازیں یہودیت اور عیسائیت قبول کرچکی تھی کہ مذہب عقل سے آزاد ہے ۔ حاشاء للہ یہ دعویٰ اسلام نے کبھی نہیں کیا ؟ اگر کیا ہے تو وہ کہاں ہے ؟ علمائے اسلام کو کیا ہوا وہ کہاں سے بہک گئے کہ انہوں نے بھی وہ دعویٰ کردیا جس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ! انہوں نے یہودیت و عیسائیت کا نام اسلام کیوں رکھ لیا ؟
Top