Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہاں ! بلاشک وشبہ جس کسی نے بھی اللہ کے آگے سرجھکایا اور وہ نیک عمل بھی ہوا تو وہ اپنے رب سے اپنا اجر ضرور پائے گا ، نہ تو اس کیلئے کسی طرح کا کھٹکا ہے نہ کسی طرح کی غمگینی
ایمان و عمل صالح ہی جنت کی ضمانت ہے : 210: وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو انہیں ہم ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہوگا۔ (النساء 4 : 122) ذرا غور کرو اور دیکھو کہ شیطان کا سارا کاروبار ہی وعدوں اور امیدوں کے بل پر چلتا ہے لیکن آپ بتا سکے ہیں کہ شیطان کا وعدہ کبھی سچا بھی ہوا ؟ اور اگر کسی جھوٹے نے کبھی سچ بھی بولا تو کیا جھوٹ چھپانے کے لئے نہیں بولاوہ انسانوں کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر جب کسی غلط راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو آگے اس کے ایک سبز باغ پیش کردیتا ہے کسی کو انفرادی لطف و لذت اور کامیابیوں کی امید کسی کو قومی سر بلندیوں کی توقع ، کسی کو نوح انسانی کی فلاح و بہبود کا یقین ، کسی کو صداقت تک پہنچ جانے کا اطمینان۔ کسی کو یہ بھروسہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت ، بس مر کر مٹی ہوجانا ہے کسی کو یہ تسلی کہ آخرت ہے بھی تو وہاں کی گرفت سے فلاں کے طفیل اور فلاں کے صدقے میں بچ نکلو گے۔ غرض جو جس وعدے اور جس توقع سے فریب کھا سکتا ہے اس کے سامنے وہی پیش کرتا ہے اور پھانس لیتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر ، جو بھی برائی کرے گا ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے گا نہ مددگار۔ اور جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ مرد ہو خواہ عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور رائی برابر بھی ان کے ساتھ بےانصافی ہونے والی نہیں۔ “ یہودیوں کی ایمانی حالت تو یہ ہے کہ نہ راہ حق اختیار کرتے ہیں اور نہ کسی کو راہ حق اختیار کرنے دیتے ہیں اور باوجود ان حرکتوں کے وہ سمجھتے ہیں کہ نجات کے حقدار بھی صرف وہی ہیں۔ عجیب عقیدہ ہے ان کا کہ ” چور بھی اور چتر بھی “ یہ چالاکیاں ان کو کیسے کام دیں گی۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ دخول جنت کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ وہ یکسر اطاعت و فرمانبردار بن جائیں۔ ان کا اٹھنا اور بیٹھنا ، سونا اور جاگنا ، کھانا اور پینا ، چلنا اور پھرنا ، جینا اور مرنا سب اس کے لئے ہو۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے کہ : اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ00162 لَا شَرِیْكَ لَهٗ 1ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ 00163 ” تم کہہ دو میری نماز ، میرا حج ، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں پہلا فرمانبردار ہوں۔ “
Top