Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 74
وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓئِثَ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَۙ
وَلُوْطًا : اور لوط اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اسے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچالیا مِنَ الْقَرْيَةِ : بستی سے الَّتِيْ : جو كَانَتْ تَّعْمَلُ : کرتی تھی الْخَبٰٓئِثَ : گندے کام اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : وہ تھے قَوْمَ سَوْءٍ : برے لوگ فٰسِقِيْنَ : بدکار
اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے حکم و علم عطا فرمایا ہم نے اس بستی سے اسے نجات دی جس کے باشندے بڑے ہی گندے کام کیا کرتے تھے اور کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہی بد راہ ، حد سے گزرے ہوئے لوگ تھے
لوط (علیہ السلام) کو علم و حکمت دیئے جانے کا مختصر ذکر : 74۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لوط (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے اور بھائی حاران کے بیٹے تھے جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ایمان لائے اور آپ ہی کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کی تھی اور ان کی بیوی بھی ان کے ساتھ ہی ہجرت کرکے آئی تھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس بیوی نے آپ کی مخالفت کی اور وہ آپ کے ساتھ ہجرت کے لئے نہ نکلی وہ یقینا کوئی دوسری بیوی ہوگی جو اس ہجرت کے بعد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ آپ نے کی تھی اس کے بعد اس سے نکاح کیا ہوگا جو اس قوم سے تعلق رکھتی تھی جس قوم کی طرف آپ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا تورات میں ہے کہ مصر کے قیام میں چونکہ دونوں کے پاس کافی سازوسامان تھا اور مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ تھے اس لئے ان کے چرواہوں اور محافظوں میں بہت زیادہ کشمکش رہتی تھی ، سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے چرواہے چاہتے تھے کہ اس چراگاہ اور سبزہ زار سے پہلے ہمارے ریوڑ فائدہ اٹھائیں اور لوط (علیہ السلام) کے چرواہوں کی خواہش ہوتی کہ اول ہمارا حق سمجھا جائے ، ابراہیم (علیہ السلام) نے اس صورت حال کا اندازہ کر کے سیدنا لوط (علیہ السلام) سے مشورہ کیا اور دونوں کی صلاح سے یہ طے پایا کہ باہمی تعلقات کی خوشگواری اور دائمی محبت والفت کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ لوط مصر سے ہجرت کرکے شرق اردن کے علاقہ سدوم اور عامورہ چلے جائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ کریں اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) واپس فلسطین چلے جائیں اور وہاں رہ کر اسلام کی تعلیم وتبلیغ کو سربلند کریں۔ لوط (علیہ السلام) کے سدوم آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور وہ نبوت کا پیغام ان کو پہنچانے لگے ، لیکن سدومی ایک خاص اخلاقی بیماری کے شکار ہوچکے تھے جسے ہم جنسی کا نام دیا جاسکتا ہے یا اس کو سدومیت ہی کے نام سے پکارا جانا مناسب حال ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کو لواطت کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ یہ نام کسی حال میں درست اور صحیح نہیں ہو سکتا ۔ ان کی اس مخصوص اخلاقی بیماری کا نام ہر اس جگہ لیا گیا ہے جس جگہ قرآن کریم نے لوط (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور ہر جگہ اس کو نہایت ہی گندگی کا کام قرار دیا گیا ۔ چناچہ زیر نظر آیت میں بھی اس کے متعلق فرمایا گیا کہ (آیت) ” القریۃ التی کانت تعمل الخبائث “۔ ” وہ بستی جس کے باشندے بڑے ہی گندے کام کرنے کے عادی ہوچکے تھے ۔ (آیت) ” انھم کانوا قوم سوء فسقین “۔ ” بلاشبہ وہ بڑے ہی بد راہ ‘ حد سے گزرے ہوئے لوگ تھے “ اور یہ بات بلاشبہ صحیح اور درست ہے کہ آج بھی جس فرد وشخص میں یہ بیماری پائی جاتی ہے وہ اس جیسی کئی خبیث بیماریوں کا شکار ہوتا ہے اور اسی طرح وہ لوگ اس وقت بھی اس بیماری کے ساتھ بہت سی دوسری بیماریوں کا شکار تھے اور کثرت کے ساتھ تھے جس کا تفصیلی بیان سورة الاعراف کی آیت 80 ‘ 81 میں گزر چکا ہے اور سورة الاعراف عروۃ الوثقی کی تیسری جلد میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
Top