Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
جن کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے اب انہیں بھی جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے
حج کی اجازت دو کہ جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے ظلم کی رات مٹانے کے لئے حکم : 39۔ (یقتلون) جمع مذکر غائب مضارع مجہول جن سے قتال کیا جائے ، یہ قتال کن سے کیا جا رہا تھا ؟ مسلمانوں سے ‘ کون کر رہا تھا ؟ کفار مکہ جو اس قتال کے اصل الاصول تھے کہ انہوں نے مسلمانوں پر جنگ مسلط کی تھی اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو حج جیسے فریضہ کے ادا کرنے سے بھی انہوں نے روک دیا تھا اور پھر وہ اجازت دینے کے لئے تیار بھی نہیں تھے ، اب مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ کفار مکہ سے قتال تو پہلے ہی جاری ہے اب تم حج وعمرہ کی غرض سے بھی ان سے جنگ کرسکتے ہو ۔ ہمارے مفسرین نے یہ قتال کا حکم پہلا حکم بتایا ہے جو کسی حال میں بھی صحیح نہیں اس لئے کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو سورت نازل ہوئی وہ بالاتفاق البقرہ ہے اور البقرہ کے بعد الانفال نازل ہوئی جس میں بعض جنگوں کی پوری تفصیل دی گئی اس لئے اس حکم کو جہاد کا پہلا حکم نہیں قرار دیا جاسکتا پھر (یقاتلون) کے الفاظ خود اس بات پر دال ہیں کہ جنگ جاری ہے اور جن لوگوں کی طرف سے یہ ظلم ڈھایا گیا وہ قریش مکہ ہیں جنہوں نے ایک طرح کے نہیں بلکہ طرح طرح کے ظلم ڈھا رکھے تھے اور اس وقت جس ظلم کی بات کی جا رہی ہے وہ ظلم حج وعمرہ کی رکاوٹ کا ہے اور مسلمانوں کو اس ظرض وغایت کے پیش نظر ابھی تک جہاد کی اجازت نہ دی گئی تھی اور بلاشبہ یہی وہ اجازت ہے جس کو ملنے کے بعد نبی اعظم وآخر ﷺ نے باقاعدہ عمرہ کی تیاری کی اور عمرہ کی غرض سے مکہ والوں کو اطلاع دے کر مکہ میں بغرض عمرہ داخل ہونے کی کوشش فرمائی اور میدان حدیبیہ میں قریش مکہ کے ایک وفد سے اس سال نہیں تو آئندہ سال اجازت دی گئی کہ وہ عمرہ ادا کریں اور حج ادا کریں ان کے لئے اب کوئی روک نہیں ہوگی صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے 7 ہجری میں پہلا عمرہ ادا کیا اور 8 ہجری میں اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کرا کر بیت اللہ کی تولیت مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دی ۔ (اذن) کے لفظ سے غالبا مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ یہ جہاد کا پہلا حکم ہے کیونکہ (اذن) کے معنی اجازت دینے ہیں ۔ بلاشبہ (اذن) کے معنی حکم دیا گیا ‘ اجازت دی گئی کے ہیں لیکن کسی چیز کی اجازت دی گئی ؟ جہاد کرنے کی ‘ نہیں بلکہ بغرض حج وعمرہ ادا کرنے کی جہاد کی اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن سے پہلے ہی ان لوگوں نے جنگ جاری رکھی ہوتی ہے اور ظالم تو وہ پہلے ہی تھے لیکن ان کا یہ ظلم کہ انہوں نے مسلمانوں کو حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے سے روک دیا حالانکہ ان کو اس کا کوئی حق نہیں تھا جب کہ ان کے اپنے قانون میں بھی یہ موجود تھا کہ جن لوگوں سے وہ برسرپیکار ہوتے ان کو ان مہینوں میں حج وعمرہ کی اجازت دی جاتی جس کا ذکر پیچھے سورة التوبہ میں بتفصیل گزرچکا ہے ، بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اجازت کے لحاظ سے پہلا حک جہاد یہی ہے یعنی اس میں مسلمانوں کو جہاد کی جازت دی گئی اور حکم جہاد البقرہ ہی کی آیت میں ہے لیکن اجازت اور حکم میں کوئی فرق تسلیم بھی کیا جائے تو اجازت پہلے ہوتی ہے پھر اجازت کی آیت کو حکم دیا قتال سے ایسی مؤخر سورت میں بیان کرنا جس کا نزول بلاشبہ البقرہ کے بعد ہوا ہے اور اس وقفہ میں بھی پانچ چھ سال کا وقفہ میں بھی پانچ چھ سال کا وقفہ تسلیم کیا ہے ۔ جن لوگوں نے سورة حج کو مکی لکھا ہے انہوں نے بھی پہلا حصہ مکی تسلیم کیا اور دوسرا مدنی جس کے نزول کا زمانہ مدینہ میں آنے کے پانچ چھ سال بعد ہوا اور اور یہ بھی کہ جو ترتیب نزول تسلیم کی گئی ہے اس میں بھی البقرہ کا نمبر 86 ہے اور سورة الحج کا 103 نمبر ہے جو اس فرق کو واضح کر رہا ہے ، چناچہ سورة البقرہ کی آیت 190 میں پہلا حکم جہاد نازل ہوا آیت 191 میں جہاد جاری رکھنے کی غرض وغایت بیان کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ جہاد کب تک جاری رہنا چاہئے اور پھر تاکیدی احکام بھی نازل کئے گئے جن کا ذکر آیت 244 میں کیا گیا پھر بزور بازو عمرہ و حج کرنے کی اجازت مرحمت کی گئی اور مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ اب اس ظلم کو مٹانے کا وقت بھی آچکا ہے اور اللہ تمہاری مدد کرے گا تم عمرہ کی غرض سے آگے بڑھو اور مکہ والوں کو اطلاع دے دو کہ ہم عمرہ کرنے کی غرض سے آرہے ہیں ہمارا راستہ خالی کر دو مکہ والوں کو معلوم ہوا تو وہ اہل اسلام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے حدیبیہ میں پہنچے اور اس سال نہیں تو آئندہ سال مشروط طور پر اجازت عام دینے پر رضا مند ہوگئے آپ ﷺ نے اس کو منظور فرمایا کیونکہ جو کچھ مقصود تھا وہ حاصل ہوگیا اور اللہ رب العزت نے اس صلح کو فتح قرار دیا جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا ۔
Top