Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
جو لوگ ایمان لائے ہیں یقینا اللہ ان کی مدافعت کرتا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو کہ وہ کفران نعمت کر رہے ہیں کبھی پسند نہیں کرتا
ایمان والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لازم ہے کفران نعمت کو وہ پسند نہیں کرتا : 38۔ (یدفع) دفع سے ہے جس کے معنی دور کرنے کے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جب اس کا تعدیہ بذریعہ الی ہوتا ہے تو اس کے معنی دینے اور حوالہ کرنے کے آتے ہیں جیسے (فادفعوا الیھم اموالھم) ” پس ان کے مال ان کے حوالے کر دو “ اور جب عین کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس کے معنی دفع کرنے ‘ ہٹانے اور حمایت کرنے کے آتے ہیں جیسے اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ (آیت) ” ان اللہ یدافع عن الذین امنوا “۔ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے اہل ایمان کی “ اور مطلب واضح ہے کہ اب جب کہ مسلمان کفار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت یقینا ان کے شامل حال ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان کا دفاع کرے گا ۔ زیر نظر آیت سے مضمون کا رخ اس وقت کی طرف مڑ گیا جب اہل اسلام ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے اور ان کے آنے کے بعد پہلا موسم حج آیا اور مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ اب مسلمانوں کو خواہ وہ مہاجر ہوں یا انصار بیت اللہ سے محروم کردیا گیا ہے کیونکہ مکہ والوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اب ہم مسلمان کہلانے والوں کو حج نہیں کرنے دیں گے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی کہ فکر نہ کرو تم ہی اصل بیت اللہ کے وارث ہو کیونکہ وہ دین ابراہیمی جس نے مناسک حج کو باقاعدہ زندہ کیا تھا وہی تمہارا دین ‘ وہی تمہاری ملت ہے تم اٹھو اپنا مقام سنبھالو اور اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے ساتھ ہے ۔ اس وقت موسم حج کی وہ سنت جو قربانی کی سنت ہے آج سے رہتی دنیا تک اس روز کی یاد تازہ کرنے کے لئے جہاں بھی مسلمان ہوں گے سنت قائم ہے اس سنت کو پورا کرتے رہو تمہاری یہ قربانیاں اس طرح مقبول ومنظور ہوں گے اور عنقریب آنے والے وقت میں تم کو بیت اللہ کی تولیت بھی لوٹا دی جائے گی کیونکہ تم حق پر ہو اور حق کو دبایا تو جاسکتا ہے کہ جب حق والے نہ اٹھیں تو وہ دبا رہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ حق لینے والے موجود ہوں اور پھر حق کو وہ حاصل نہ کرسکیں ۔ تم اپنے آپ کو یکتا و تنہا ہرگز نہ سمجھو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور وہ یقینا اہل حق کی مدد فرماتا ہے وہ تمہارے خلاف دشمنوں کی ساری چالوں کا خود توڑ کرے گا اور کفران نعمت کرنے والوں کو نیچا دکھائے گا ، اس طرح آج بھی یہ آیت اہل حق کے لئے ویسی ہی ایک بشارت ہے جیسی کہ اس وقت تھی اور یہ وعدہ الہی بدستور قائم ہے کہ : ” اللہ تعالیٰ کفران نعمت کرنے والوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ “ نبی اعظم وآخر ﷺ ہجرت کرکے 8 ربیع الاول 13 نبوی مطابق 30 ستمبر 622 عیسوی دو شنبہ کے روز فارس ماہ تیر کی چوتھی تاریخ اور رومی ماہ ایلول 923 اسکندری کی دسویں تاریخ کو مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تھے اور 2 سال گزرنے کے بعد یہ پہلا حج تھا کہ مکہ والوں کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ اب ہم مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ، اس وقت تک جب یہ سورت نازل ہوئی کتنے سال گزر چکے ہوں گے لیکن ابھی تک مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ بزور بازو حج میں شریک ہوجائیں خصوصا جب کہ ان دونوں میں قتال ویسے بھی حرام تھا اور اس حرمت کو اسلام بھی تسلیم کرتا تھا نصرت الہی کا وعدہ دیا گیا اور قتال کی جو پہلے ہی اجازت دی جا چکی تھی اور کتنی جنگیں بھی لڑی جا چکی تھیں لیکن حج وعمرہ کی غرض سے ایسا اقدام کرنے کی اجازت ابھی نہیں ملی تھی لیکن آنے والی آیت میں اس غرض خاص کے لئے بھی رب ذوالجلال والاکرام نے اجازت مرحمت فرما دی ۔
Top