Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
وہ بولے ، کیا ہم تم پر ایمان لائیں حالانکہ تمہارے پیرو حقیر لوگ ہیں
قوم کے وڈیروں نے کہا کہ ہم تیرے لئے کیسے ایمان لائیں جبکہ تیرے پیرورذیل لوگ ہیں : 111۔ ذرا غور سے کام لیا جائے تو بات خود بتا دیتی ہے کہ میرے کہنے والے کون لوگ ہیں یہاں بھی بات پر غور کرنے ہی سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ جن لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا کہ ” ہم تجھے کیسے مان لیں جب کہ تیری پیروی ہم میں سے رذیل ترین لوگ کر رہے ہیں ۔ “ وہ بلاشبہ آپ کی قوم کے سردار ‘ مذہبی پیشوا اور سیاسی لیڈر ہی ہوسکتے ہیں جن کے پاس مال و دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں اور بڑے بڑے خاندانوں اور برادریوں میں وہ سرکردہ لوگ گنے جاتے ہیں اور انہی وسائل کی بنا پر وہ غریب لوگوں کو رذیل اور کمین خیال کرتے ہیں ایسے لوگ ہر زمانہ میں رہے اور اب بھی ان لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں ہے اس ملک عزیز میں بھی سیاسی اور مذہبی پیشوایان قوم کا یہی حال ہے کہ وہ باپ دادا والے کہلاتے ہیں اور غریبوں کو وہ انسانیت کے حقوق دینے کے لئے آج بھی تیار نہیں اور انسانی مساوات کے زبانی دعویدار ہونے کے باوجود اندر سے سخت مخالف ہیں ان کی ہر حرکت یہ بتاتی ہے کہ یہ امیر و غریب کے امتیاز کو سختی کے ساتھ قائم رکھنا چاہتے ہیں یہ مالدار ہیں تو مالداروں کو اور زمین دار ہیں تو زمین داروں کو ہی برابری کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں غریب اور کاشتکار ان کی نظروں میں آج بھی رذیل ہیں اور رذالت و شرافت کے حقیقی معیار کو وہ سمجنے کے لئے آج بھی تیار نہیں ، اس کی تفصیل دراصل پیچھے سورة ہود کی آیت 27 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی قریش نے یہ سلوک کیا جو نوح (علیہ السلام) سے نوح کی قوم نے کیا تھا اس تقابل کے لئے اس کو اس جگہ بیان کیا گیا ہے ۔
Top