Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ نے اس بات کی گواہی آشکارا کردی ہے کہ کوئی معبود نہیں مگر صرف اسی کی ذات فرشتے بھی اس کی شہادت دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علم رکھنے والے ہیں ، ہاں ! کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ایک طاقت و غلبہ والا اور حکمت والا
الٰه صرف اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ ہی کی ذات ہے : 46: ’ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ : ہُوَبھی اسم ذات باری تعالیٰ ہے اور اسمائے حسنیٰ میں سب سے پہلے واقع ہوا ہے۔ ھُوَ صرف اشارہ اور اشارہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کہ مشار الیہ نظر آئے یا اس کی بابت کوئی اطلاع و خبر دی جارہی ہو۔ اسم ھُوَ ایک حرف ہے اس میں جو حرف ” واؤ “ نظر آتا ہے وہ پیش کو کھینچ کر پڑھنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔ اس لیے بھی یہ اسم مقدس دراصل وحدت مسمّٰى کی دلیل ہے اس کے سوائے کسی اور اسم میں ایسی مشابہت نہیں ہے۔ ھُوَ وہ اسم اعظم ہے جس کے انوار کی تجلیات سے پروردگار کے خصوصی اسرار ظاہر ہوتے ہیں اور جب کہ یہ اسم اشارہ ہے تو بیان کی وضاحت کے لیے اسم ” اللہ “ کو اس کے ساتھ لگا دیا جو ” ھو اللہ “ اسم ” ھو کا مسمی تمام کیفیات سے منزہ اور ابتدا و انتہا سے بالا تر و مقدس ہے کوئی ابتداء اس تک نہیں پہنچ سکتی اور کسی انتہاء کی اس تک رسائی نہیں ” اللہ “ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس کی اولیت سے ابتداء عاجز اور اس کے آخری ہونے سے نہایت و انتہاء قاصر ہے۔ ” اللہ “ یہ اس ذات کا علم (نام) ہے جو الوہیت کی تمام صفات کی جامع ہے۔ یہ اسم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ حقیتہً یا مجازاً کسی دوسرے کے حق کے لیے نہیں بولا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اسم ایسا جامع ہے کہ اس کے حروف میں سے کسی حرف کو ہٹادینے سے بھی مراد ذات باری تعالیٰ ہی رہتی ہے مثلاً اگر پہلاحرف ” ا “ ہٹا دیا جائے تو ” للہ “ باقی رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ” اس یعنی اللہ کے لیے “ اور اگر ” الف “ کے بعد ایک ” لام “ کو بھی ہٹا دیا جائے تو ” لہ “ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں اس یعنی اللہ کے لیے اور اگر دوسرا ” لام “ بھی ہٹا دیا جاتا ہے تو ” ہ “ باقی ہ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اسم ذات ہے جیسا کہ اوپر ” ھو “ میں بیان کیا گیا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ دل کی پوری توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مستغرق رہے۔ اس کے سوا کسی دوسری طرف توجہ نہ کرے کسی غیر سے کوئی امید نہ رکھے اس کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ اور ” الٰه “ کا مفہوم و مطلب بڑا وسیع ہے اور اس کی وسعت قرآن کریم میں جگہ جگہ ارشاد فرمائی گئی ہے ” الٰه “ کا معنی صرف ” معبود “ کیا جاتا ہے جو کسی صورت اور کسی حال میں بھی درست نہیں۔ بلاشبہ الٰه کے معنی معبود کے ہیں لیکن ہر جگہ صرف اور صرف یہی معنی مراد نہیں لیے جاسکتے۔ اس کی تفصیل کے لیے چند آیات کریمات بیان کی جاتی ہیں جو قابل غور ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے : اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبتْنَا بِهٖ حَدآئِقَ ذَاتَ بَھْجَةٍ مَا کَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَھَا ءِ الٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ. ” وہ کون ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا یا اور جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا۔ پھر اس آبپاشی سے خوش نما باغ اگا دیے حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت اگائے کیا ان کاموں کے کرنے والے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ مگر یہ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ برابری کرتے ہیں۔ “ اس جگہ ” الٰه “ کے معنی کیا ہوئے ؟ 1 آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا۔ 2 آسمانوں سے پانی برسانے والا۔ 3 باغات کے درخت اگانے والا۔ یہ تینوں کام کرنے والا کون ہے ؟ ” اللہ اور اللہ کے سوا ظاہر ہے کہ کوئی معبود نہیں اور اللہ ہی ” الٰه “ ہے۔ “ اب آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اللہ ہو اور جو کچھ آسمان و زمین میں موجود ہے سب کا خالق بھی اللہ ہو تو انسان کہاں رہتا ہے ؟ اس زمین کے اندر اور اسی آسمان کے نیچے پھر انسان اللہ کے سوا کسی دوسرے کو خالق سمجھے تو انسان نے کیا کیا ؟ اللہ کے ساتھ دوسرے کو برابر کردیا اور یہی شرک ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اچھا بتاؤ وہ کون ہے جس نے زمین کو زندگی و معیشت کا ٹھکانہ بنا دیا۔ اس کے درمیان نہریں اری کردیں۔ اس کی درستی کے لیے پہاڑ بلند کردیے اور اس نے سمندر کے اند دو پانیوں میں نہ نظر آنے والی ایسی دیوار حائل کردی کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں کیا اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بھی ہے جو یہ سارے کام یا ان میں کوئی کام سر انجام دینے والا ہے۔ مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ “ الٰه مع اللہ (النمل 27 : 61 ) الٰه کون ہوا ؟ 1 زمین کو قرار بخشنے والا۔ 2 زمین میں دریاؤں کو بہانے والا۔ 3 پہاڑوں کو بلند کرنے والا۔ 4 دو پانیوں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا۔ بات واضح ہو ﴾گئی کہ زمین کو قرار بخشنے والا دریا بہانے والا۔ پہاڑوں کو بلند کرنے والا۔ دو پانیوں کے درمیان آڑ بنانے والا اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ سارے کام کرنے والے ہی کو ” الٰه “ کہا جاتا ہے۔ گویا اس جگہ الٰه کے معنی ایسے سارے کام کرنے والے کے ہیں۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ لوگ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ پھر ارشاد الٰہی ہوا : ” اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو بےقرار دلوں کی پکار سنتا ہے جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اسے پکارنے لگتے ہیں اور وہ کون ہے وہ جو ان کے دکھ درد ٹال دیتا ہے ؟ وہ کون ہے جس نے تم کو زمین کا جانشین بنایا ؟ کوئی ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بھی ہو افسوس تمہاری غفلت پر ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو۔ “ (النمل 27 : 62 ) ” الٰه “ کون ہوا ؟ 1 بےقرار دلوں کی پکار سننے والا۔ 2 دکھ درد اور تکلیف کو دور کرنے والا۔ 3 اس زمین میں بسانے والا۔ جس نے ان سارے کاموں میں سے کسی ایک کام کا کرنے والا بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کو جانا تو گویا اس نے اللہ کے سوا ” الٰه “ بنا لیا۔ خواہ وہ کون ہو کیونکہ ” الٰه “ کے یہ معنی مرادف ہیں اور ” الٰه “ ہی معبود حقیقی ہے۔ فرمایا یہ بہت ہی کم ہوتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرسکو۔ کیونکہ اکثر انسان سنی بات کو ان سنی کردیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا : ” اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے جو یہ کام کرتا ہو کہ اس کو معبود کہا جائے۔ اللہ بہت بلند ہے اس سے جس طرح یہ لوگ شرک بناتے ہیں۔ “ (النمل 27 : 63 ) ” الٰه “ کون ہوا ؟ وہی جو بران رحمت لاتا ہے اور ان ہواؤں کو بھی جو ان بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں اور یہی ہے جو عبادت کے بھی لائق ہے۔ اب بادل کو کسی دوسرے کے حکم کے تابع سمجھ کر بارش کرنے کے لیے جس کو بلایا گیا گویا وہ ” الٰه “ قرار دے دیا حالانکہ ” الٰه “ اللہ ہی ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ کیسے ہیں جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے سے باز نہیں آتے۔ اس طرح کی آیات کریمات بیشمار ہیں جن میں ” الٰه “ کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں اور ” الٰه “ ہی سب معنوں کے مرادف ہے۔ جس نے ایسی کوئی صفت کسی غیر سے متصف کی تو اللہ کے ساتھ ایک طرح کا شریک بنایا حالانکہ وہ ہر طرح کے شرک سے پاک و منزہ ہے۔ یہ اور اس طرح کی بیسیوں آیات کریمات یہ بتاتی ہیں کہ ” الٰه “ کے معنی صرف معبود ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے بڑھ کر کوئی عادل نہیں ہے : 47: ” وہ عدل کے ساتھ تدبیر و انتظام کرنے والا ہے۔ “ ” عادل “ برابر یا انصاف کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ ایسا عادل ہے جس کا ہر فعل عدل محض ہے۔ یعنی اس کا ہر کام بےعیب اور اپنی خوبیوں کے لحاظ سے بہترین ہے۔ ایک سچے مؤمن کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں اور اپنی خوبیوں کے لحاظ سے عمدہ ترین ہے تو اس کا فرض ہے کہ کسی مصیبت اور رنج میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہ کرے۔ جو اس پر گزرے اس پر صابر رہے۔ تیوری نہ چڑھائے بلکہ اس کا شکر بجا لائے۔ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر پر لازم ہے کہ عدل و انصاف کرے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا 1ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ 1ۚ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ 00115 (الانعام 6 : 115) ” اور تمہارے پروردگار کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہو کر رہے گی۔ اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں۔ وہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے : ” اے مسلمانوں ! اللہ حکم دیتا ہے کہ ہر معاملہ میں انصاف کرو ” یَاْمُرُبِالْعَدْلِ “ اور سب کے ساتھ بھلائی کرو اور قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور تمہیں روکتا ہے کن باتوں سے ؟ بےحیائی کی باتوں سے۔ ہر طرح کی برائیوں سے اور ظلم وزیاتی کے کاموں سے اور وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ سمجھو اور نصیحت پکڑو۔ “ عدل تمام محاسن کی اصل ہے۔ جس انسان کے اندر یہ بات پیدا ہوگئی کہ جو بات کرنی چاہے انصاف کے ساتھ کرے اس نے گویا سب کچھ پا لیا اور حاصل کرلیا۔ ” وَالْاِحْسَانِ “ احسان سے یہاں مقصود حسن عمل ہے۔ جو بات کرو حسن و خوبی کی کرو۔ نیکی اور بھلائی کی کرو۔ یعنی بنیاد عمل بھلائی ہو ، برائی نہ ہو۔ جس نے یہ بات پا لی اس کے لیے اور کیا باقی رہا ؟ پھر جو ہم سے قرب کا رشتہ رکھتے ہیں وہ ہمارے حسن و سلوک کے زیادہ حق دار ہیں اس لیے ” اِیْتَانِى ذِى الْقُرْبٰى“ کی رعایت بھی ضروری ہوئی اور اس حکم پر اوامر کا معاملہ پورا ہوگیا۔ پھر ” فحشاء “ ” منکر “ اور ” بغی“ سے روک کر نواہی کے سارے مقاصد پورے کردیے۔ ” فحش “ سے مقصود وہ برائیں ہیں جو حد درجہ کی برائیاں تسلیم کرلی گئی ہیں مثلاً : زنا ، افتراء پردازی ، کنجوی وغیرہ۔ ” منکر “ میں ہر طرح اور ہر قسم و درجہ کی برائیاں آگئیں ” بغی“ میں ہر طرح کی زیادتی آگئی خواہ وہ کسی گوشہ اور کسی شکل میں کی گئی ہو جو کتاب ایسے سانچے لے کر آئی ہو۔ جس سے ایسے اعمال ڈھلتے ہوں۔ جو ایسی زندگیاں بناتی ہو ، اگر وہ ہدایت ، رحمت اور بشارت نہیں ہے تو اور کس طرح سے اسے پکارا جاسکتا ہے ؟ اور یہ سب کیا ہے ؟ عدل ہی عدل تو ہے۔ یہ تمام کام عدل و انصاف کے ہیں اور اللہ تعالیٰ ” عادل “ ہونے ہی کی باعث ان کا حکم دیتا ہے چناچہ ارشاد ملاحظہ ہوں 1: ” اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جب تم فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو۔ یہ بات اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “ (النساء 4 : 58 ) (المائدہ 5 : 42) (الاعراف 7 : 29) 2: بات جب کہو عدل کی کہو چاہے کسی رشتہ دار ہی کے خلاف پڑتی ہو۔ (الانعام 6 : 152 ) 3: جب تم کو حکومت ملے تو لوگوں میں انصاف کرو اور اپنی خواہشات نفسانی پر مت چلو ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور جو کوئی اللہ کے راستے سے بھٹک جائے تو ایسے لوگوں کو سخت عذاب ہوگا۔ بسبب اس کے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا۔ (ص 38 : 26) 4: ایسا نہ ہو کہ کسی شخص یا قوم کی دشمنی تم کو بےانصافی پر آمادہ کردے۔ عدل کرو ، یہی بات تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے عملوں سے باخبر ہے۔ (المائدہ 5 : 8) احادیث میں بھی ” عدل “ کی بہت فضیلت آئی ہے : 1: حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” اللہ کو سب سے زیادہ محبوب امام عادل ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیٹھنے والوں میں سب سے زیادہ امام عادل ہی ہوگا۔ “ (ترمذی) 2: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا عادل اور منصف بادشاہ کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ (ترمذی ) 3: حضرت عیاض بن عمار ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا امام عادل جنت کا مستحق ہے۔ (مسلم) 4: حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے روز عرش الٰہی کے سایہ میں سات قسم کے لوگ ہوں گے اور ایک ان میں امام عادل ہوگا۔ (بخاری) فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے : 48: ” فرشتے بھی اس کی شہادت دیتے ہیں “ ، ” الملئکة “ فرشتوں کا تصور ہر قوم میں موجود رہا ہے اور اس طرح اہل کتاب اور مشرکین مکہ میں بھی یہ تصور موجود تھا اور یہ وہی مخلوق ہے جسے اکثر مشرک قومیں دیوتا کا لقب دے کر شریک خدائی سمجھ رہی ہیں۔ کسی گروہ نے ان کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا اور مقصد سب کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا سفارشی بنانا ہی تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جو مجسمہ بھلائی ہیں ان سے تو برائی سرزد ہی نہیں ہوتی اور شرک سے بڑھ کر تو کوئی بڑی برائی اور ہے ہی نہیں لہٰذا تم خود ہی غور کرو کہ فرشتے ان اوصاف سے متصف کیسے ہو سکتے ہیں ؟ وہ تو خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے او وہ تو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہیں اور اللہ کے حکم کے پابند ہیں ایسے پابند کہ اس کے حکم کے سوا وہ کوئی حرکت بھی نہیں کرتے چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ ہُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ 0049 یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ 0050 (النمل 16 : 49 ۔ 50 ) ” اور آسمانوں میں جتنی چیزیں ہیں اور زمین میں جنتے جانور ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں اور نیز فرشتے بھی اور وہ کبھی سرکشی نہیں کرتے۔ وہ تو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان کے اوپر موجود ہے اور جو کچھ حکم انہیں دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ “ ایک جگہ اہل کتاب اور خصوصاً نصاریٰ کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے جو اس سورة مبارکہ میں اصل مخاطین ہیں : وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ 1ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ 1ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَ 1ؕ کَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ. (المائدہ 21 : 26۔ 29) ” اور دیکھو انہوں نے کہا ہے کہ خدائے رحمن نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے۔ پاکیزگی ہے اس کے لیے یہ لوگ جنہیں اس کی اولاد بناتے ہیں وہ تو اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو سا کے معزز بندے ہیں اور وہ اس کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے وہ اس کے حکم پر سرتار سر کاربند رہتے ہیں۔ جو کھ ان کے سامنے ہے او جو کچھ ان کے پیچھے ہے سب اللہ جانتا ہے۔ ان کی مجال نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں ! جس کی بخشش اللہ پسند فرمائے اور وہ تو اس کی ہیبت سے خود ہی ڈرتے رہتے ہیں اور ان میں سے اگر کوئی ایسی جرات کرے اور کہے کہ اللہ کے سوا میں معبود ہوں تو اس کی پاداش میں ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو ان کے ظلم کا بدلہ دیتے ہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَیُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ یَسْجُدُوْنَ. (الاعراف 7 : 206) ” جو اللہ کے حضور مقرب ہیں وہ کبھی بڑائی میں آکر اس کی بندگی سے نہیں جھجھکتے وہ اس کی پاکیزگی وثناء میں زمزمہ سبخ رہتے ہیں اور اس کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔ “ صاحب علم لوگوں کی بھی شہادت یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں : 49: ” جو لوگ علم رکھنے ولے ہیں “ اولوا العلم ” علم سے مراد علم حقائق ہے نہ کہ کوئی اور علم۔ جو علم والے سمجھتے ہیں وہ جاہل کہاں سمجھ سکتے ہیں ، کیوں ؟ اس یے کہ حقیقت ان کی عقل سے ہی وراء ہے۔ جیسے بعض جاہل قوموں نے خدا کا وجود تو تسلیم کیا ہے لیکن وجود معطل ” جو لینا ہے لے لیں گے محمد ﷺ سے “ سمجھا ہے یا ایسی صفات سے موصوف جانا ہے جو کمالات الٰہی کے منافی ہ۔ اسلام کا خدا خدائے معطل نہیں۔ ہاں ! منظم ہے ، کارساز ہ۔ ہر ایک اور ہر کام جو اس کی ذات کے لائق ہے بنانے والا ہے اور جو اس کی ذات کے منافی ہے وہ کبھی نہیں کرتا اور ہرگز نہیں کرتا۔ کوئی نہیں جو اسکے چڑچڑائے۔ اہل علم وہی ہیں جو اہل ذکر ہیں۔ اس لیے ایک جگہ ارشاد فرمایا : فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّكْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ” اگر منکریں حق ! اگر خود تمہیں یہ بات معلوم نہیں تو ان لوگوں سے دریافت کرلو جو آسمانی کتابوں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں یعنی اہل کتاب۔ “ اس کی تفصیل ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمائی: قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى کَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْـًٔا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ 1ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ. (آل عمران 3 : 64) ” اے پیغمبر اسلام تم یہود و نصاریٰ سے کہه دو کہ اے اہل کتاب تم اختلاف نزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لیے یکساں طور پر مسلم ہے۔ وہ کیا ہے ؟ یہی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ کسی کی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ ہم میں سے کوئی ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا باتاؤ نہ کرے کہ خدا کو چھوڑکر اسے اپنا پروردگار بنا لے۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہه دو گواہ رہنا کہ انکاری تم ہو اور ہم تو اللہ وحدہ لا شریک لہ کو ماننے والے ہیں۔ “ ” العلیم “ بغیر کسی کے بتائے جانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو ہرچیز کے اول ، آخر ، ظاہر ، باطن ، ماضی ، حال اور مستقبل کے ذرہ ذرہ حالات سے پورے طور پر آگاہ ہے۔ بلکہ اس کے لیے ماضی اور مستقبل کوئی حقیقت نہیں رکھتے اور یہ علم اسکا ذاتی علم ہے یعنی اشیاء کے موجود ہونے اور دیکھنے بھالنے کے بعد کا نہیں بلکہ چیزوں کے وجود سے پہلے ہی تھا اور یہ علم خاصہ خدائے قدوس و حدہ لا شریک لہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم اس کا ذاتی ہے اور ساری مخلوقات کا علم خواہ کوئی نبی و رسول ہو ، ولی اللہ ان سب کا علم اس کا عطا کردہ ہے اور ان سب میں سے کسی کا علم بھی اس کا ذاتی علم نہیں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : ” جب انسان اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ اس کو کان اور سماعت آنکھیں اور بصارت ، دل اور سمجھ سوچ جیسی نعمتوں سے نوازتا ہے تاکہ وہ (انسان) شکر کرے۔ “ (النحل 16 : 78) انسان کو بولنا سکھاتا ہے۔ (الرحمٰن 4 : 55 ) اور قلم کے ذریعے سے اس کو علم سکھاتا ہے۔ (العلق 96 : 2) غرض کہ اس کو وہ کچھ سکھاتا ہے جو وہ نہ جانتا تھا۔ (العلق 96 : 5) معبود وہی ہے جو حقیقت میں طاقت و غلبہ والا اور حکمت والا ہے : 50: اصل میں ” اَلْعَزِیْزُ الحَكِیْمُ “ کے الفاظ ہیں۔ ” العزیز “ دراصل عزیز وہ ذات ہے جس کی نظیر نہ ہو اور جس کی طرف حاجت بیحد ہو۔ جس کی ہرچیز پر غلبہ حاصل ہو۔ چناچہ ارشاد خداوندی ہے : ” عزت اور غلبہ تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ “ (یونس 10 : 65) ” جو لوگ عزت حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست بناتے ہیں وہ سن لیں کہ عزت تو سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ “ (النسا 4 : 139) ” جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کو معبود بناتے ہیں کہ تاکہ وہ ان کے لیے مدد اور غلبہ کا ذریعہ بن جائیں وہ خوب سن لیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ باطل معبود تو ان کی عباتد سے بھی منکر ہوجائیں گے۔ “ (مریم 19 : 81 ، 82) ” الحکیم “ دانا۔ حکمت کے معنی ہیں بہترین چیز کا بہترین علم کے ذریعے پہچان لینا۔ تمام چیزوں سے بہترین خدائے قدوس و حدہ لا شریک لہ کی ذات اقدس ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ اس مالک الملک عزاسمہ وجل مجدہ کی حقیقت اصلیہ کو سوائے اس کی ذات کے اور کوئی نہیں جانتا۔ لہٰذا حکیم مطلق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ہاں ! مجازی طور پر حکیم کا لفظ ایسے شخص پر بولا جاتا ہے جو کسی صنعت و حرفت میں پورا کال رکھتا ہو۔ جس شخص کو وہ حکیم کل اللہ رب العزت و الجلال حکمت عطا فرمائے اس کی نظر دنیا سے اٹھ جاتی ہے اور عاقبت پر پڑجاتی ہے۔ اس کی زبان سے کلمات بھی اس ذوق سلیم کے مطابق ہی نکلتے ہیں چناچہ سید المرسلین خاتم النّبیین ﷺ کے کلمات حکمت سازی مخلوق کے کلمات سے بڑھ کر ہیں کیونکہ وہ ہی کلمات ہیں جو براہ راست اس ” حکیم کل “ ذات نے آپ ﷺ کے سینہ پر نازل فرمائے۔ ارشاد باری ہے : ” اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت مل جائے تو یقیناً اسے بڑی بھلائی مل گئی۔ “ (البقرہ 2 : 269) ” جس بندے کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ شکر اس کے بندے ہی فائدے کے لیے ہے اللہ تعالیٰ تو بےنیاز اور خوبیوں والا ہے۔ “ (لقمان 31 : 12) ” اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو کتاب اور نبوت کے ساتھ ساتھ حکمت سے بھی نوازا ہے بھلا ان سے کیسے ممکن تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی اور فرشتوں کی عبادت کرنے کو کہتے ؟ وہ تو یہی کہتے رہے کہ اللہ والے بن جاؤ اور فرشتوں اور پیغمبروں یا کسی اور کو بھی رب قرار نہ دو بھلا وہ اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو کفر کی تعلیم کیوں دیتے ؟ “ (آل عمران 3 : 79 ، 80) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” یہ اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جن کو اس نے کتاب ، حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور ہدایت سے نوازا پس تم بھی انہیں کی ہدایت کے پیروی کرو۔ “ (النمل 16 : 125) مختصریہ کہ عبادت بدنی ہو ، ملالی ہو یا قولی ہر طرح کی عبادت کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی بھی نہیں جو عبادت کے لائق ہو اور وہی سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور سب دانائوں سے زیادہ دانا تر ہے وہی حکمت والا ہے۔ وہی خالق ومالک حقیقی ہے انسانوں کو چاہیے کہ وہ بلا شرکت غیرے اس کی اور صرف اس کی عبادت کریں۔
Top