Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
تم کہو اے اللہ ! شاہی و جہانداری کے مالک ! تو اپنے قانون کے مطابق جسے چاہے بخش دے ، جس سے چاہے ملک لے لے ، جسے چاہے عزت دے ، جسے چاہے ذلیل کر دے ، تیرے ہی ہاتھ میں ہر طرح کی بھلائی ہے اور تو نے ہر بات کیلئے ایک اندازہ مقرر کردیا ہے
اب طریقہ دعا سکھایا جاتا ہے جس میں ان کے وہم کا علاج بھی ہے : 66: رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے طریق دعا کی تعلیم امت کو دی جارہی ہے اور اس کا انداز ایسا اختیار کیا جارہا ہے کہ ان سارے وہم پرستوں کے وہم کا علاج بھی اس میں مضمر ہے کہ ملک کس کا ہے اور مالک کون ہے ؟ آج اگر کوئی بادشاہ ہے تو وہ کل کیا تھا اور آئندہ کل کو کیا ہوگا ؟ کس کو معلوم ہے ؟ قیامت کے روز جن کے پلو پکڑنے کی ، امیدیں ہیں آخر ان کی دلیل کیا ہے ؟ کون ہے جس کو یہاں ہمیشگی جو آج اور کل نہیں ہوگا۔ جو کل تھا اور آج نہیں۔ جس کے اپنے ہی وجود کو ثبات نہیں وہ کسی کا سہاراکیونکر ہو سکتا ہے ؟ جو خود مصیبت میں مبتلا ہے وہ دوسرے کی مصیبت کو کیا دور کرے گا۔ جو خود مختاج ہے کیا وہ دوسرے کی حاجت کو پورا کرسکتا ہے ؟ ” مالک الملک “ کون ہے ؟ ملک سے مراد سارا جہان ہے۔ مالک کا لفظ دعا کے شروع ہی میں لا کر یاد دلا دیا کہ مالکانہ تصرف کا حق و اختیار اس کو ہے جس سے دعا کی جارہی ہے اس جگہ کوئی بھی کسی شے کا مستقل مالک نہیں۔ یہاں ہر مالک کو بھی فنا ہے اور ہر ملکیت کو بھی۔ فنا نہیں تو صرف ایک کو اور ہرچیز کا مالک ہے تو صرف وہی۔ جس چیز کے آج تم مالک ہو کل اس کا کوئی اور مالک تھا۔ جس چیز کے آج تم مالک ہو کل کوئی اور اس کا مالک ہوگا۔ كیا یہ ملکیت تم خود بدل رہے ہو۔ اپنی مرضی سے بدل رہے ہو۔ سوچ کر جواب دو ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر وہ کون ہے جو اس کو بدل رہا ہے ؟ ہاں ! وہ وہی ہے جو دراصل مالک ہے اس نے ایک چیز تمہاری ملک میں دی اور کل کسی دوسرے کی ملکیت میں دے دے گا۔ تم کو اختیار نہیں۔ نہیں ، نہیں یہاں کسی کو بھی اختیار نہیں۔ جن کا تم اختیار سمجھتے ہو ان کا بھی اختیار نہیں۔ تم کو دھوکا ہوا ہے۔ ” تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ “ تو جس سے چاہے ملک واپس لے لے۔ اگر اس میں دینے لینے کا قانون ہے تو وہ بھی اسی عطا کرنے والے نے خود بنایا ہے وہ بیشک اپنے قانون کے مطابق عطا کرے اور قانون کے مطابق لے لے۔ اس قانون پر بھی کسی کا اختیار نہیں۔ حکومت جیسی نعمت کو دینا یا اس نعمت کو واپس لے لینا تمام تر اس احکم الحاکمین کے ساتھ میں ہے اور نفس بادشاہت یا حکومت میں تقویٰ یا الوہیت ذرا سی بھی نہیں اور ابکل نہیں۔ اس میں کثرت سے پھیلے ہوئے اس جاہلی عقیدہ کا رد آگیا کہ بادشاہ خود ایک درجہ الوہیت یا نیم الوہیت کا ہے اور کسی کا بادشاہ ہوجانا گویا خدا کے اوتار کے مرتبہ پر پہنچ جانا ہے۔ جیسے مصر میں فرعون کی پرستش ہوتی رہی۔ ہندوستان میں چندر بنسی اور سورج بنسی۔ راجہ مہاراجہ خدائی اوتار سمجھے جاتے تھے۔ جاپان میں میکاڈوکل تک مظہر خدا کی حیثیت رکھتا تھا۔ سب اسی عقیدہ شاہ پرستی کے مظاہر اور علامات ہیں۔ اسلام نے آکر بتایا کہ بادشاہی بھی دوسری نعمتوں کی طرح ایک الٰہی تصرف ہے اور بادشاہ بھی بندگی۔ بےبسی۔ بےچارگی میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے سارے دوسرے انسان اور سارے دوسرے بندے۔ حقیقت ہمیشہ سے اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس وقت اس کا نظارہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ مسوللینی آمز اٹلی اور ہٹلر آمر جرمنی کے انجام کار سے کرایا جاسکتا ہے اور اب بھی باوجود جمہوریت کے دعویٰ کے ان آمروں کی کمی نہیں جن سے یہ درس لیا جاسکتا ہے کہ مالک ہر شے کا خدا وحدہ لا شریک لہٗ ہی ہے۔ باقی سب نام ہی نام ہیں۔ ایک گیا اور دوسرا آگیا۔ اور یہ ” گیا “ اور ” آگیا “ کا مسلسل عمل جاری ہے۔ ظاہر ہے کہا گر عمل جاری ہے تو کوئی اس عمل کا عامل بھی ضرور ہے کیونکہ کوئی عمل بغیر عامل کے ممکن نہیں۔ عزت کے خواہش مند اچھی طرح جان لیں کہ عزت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے : 67: اے ہمارے رب ! تو جسے چاہے اپنی حکمت کاملہ کے مطابق عزت دے ” جسے تو چاہے “ کی وسعت میں قومیں بھی آگئیں اور افراد بھی۔ عزت کا سب سے بڑا مرتبہ جو بڑے سے بڑا ہوسکتا ہے یاد کیا جائے کہ وہ کیا ہے ؟ خوب غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ وہ نبوت ہے جب تک وہ جاری تھی۔ اس طرح گویا اہل کتاب کو یہ یاد دلادیا کہ جس قوم کے جس فردکو چاہے جب تک نبوت جاری تھی مرتبہ نبوت سے سرفرار کر دے اس لیے یہ اعتراض تمہارا بالکل بےمعنی اور بےمحل ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ بنی اسماعیل سے کیوں آگیا ؟ وہ بنی اسرائیل سے کیوں نہ ہوا ؟ نبوت نہ تو بنی اسرائیل کے اختیار میں تھی اور نہ ہی بنی اسمعٰیل کے اختیار میں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جاری تھی جب تک کہ جاری تھی اور اب بالکل بند ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جو وقت اس نے اس کے بند کرنے کا مقرر کیا تھا اس پر اس کو بند کردیا۔ ” وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ “ تو جسے چاہے ذلت دے اس کی پاداش عمل میں۔ اس کا اطلاق بھی فرد و قوم دونوں پر حاوی تھا۔ کوئی فرد تو مرتبہ نبوت سے معزول نہیں ہوا اور نہ ہی معزول ہو سکتا تھا۔ البتہ یہ نعمت قوموں سے سلب ہو سکتی تھی جب تک نبوت جاری تھی۔ اب نبی اعظم و آخر ﷺ کے بعد کسی قوم سے یہ نعمت سلب نہیں ہوئی بلکہ منصب نبوت ختم کردیا گیا۔ چناچہ قوم بنی اسرائیل صدیوں تک اس نعمت سے سرفراز رہنے کے بعد معزول کی ﴾گئی اور یہ نعمت اپنی انتہائی اور آخری شکل میں عرب قوم کے ایک ممتاز فرد کے حصے میں آئی جو بنی اسماعیل سے تعلق رکھتا تھا۔ هر طرح کی بھلائی بھی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے : 68: ” تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے “ اہل کتاب اس پر حیرت زدہ کیوں ہیں کہ نعمت نبوت سے عرب قوم کا ایک فرد سرفراز کیا ارہا ہے۔ ” الخیر “ یعنی بھلائی ہر قسم کی اور ہر مرتبہ ، درجہ کی۔ کائنات میں وجود ایجابی صرف خیر کا ہے اس لیے ذکر اس کا کیا گیا اس کے مقابل کی چیز یعنی شر محض ایک سلبی چیز کا نام ہے۔ اس جگہ صرف ” خیر “ کا ذکر ہے ” شر “ کا نہیں کیوں ؟ اس لیے کہ جس چیز میں بندہ کے ارادہ اور اختیار کو دخل نہ ہو وہ محض خیر ہی خیر ہے۔ اسے ناگوار نہ جاننا چاہیے اور اسے اپنے حق میں عذاب و مصیبت نہ سمجھنا چاہیے۔
Top