Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بلاشبہ اللہ نے آدم ، نوح ، ابراہیم اور عمران (علیہم السلام) کے گھرانوں کو تمام دنیا میں برگزیدگی عطا فرمائی تھی
اللہ نے جن لوگوں کو برگزیدگی عطا فرمائی تھی ان کا ذکر 85: سلسلہ انسان کی اور نبوت کی پہلی کڑی سیدنا آدم (علیہ السلام) اور سلسلہ نبوت کی آخری کڑی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کا مفصل تذکرہ سورة البقرہ میں گزر چکا وہاں سے ملاحظہ کرلیاجائے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جو ” باوا آدم “ کے نام سے معروف ہیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) بھی ایک عظیم الشان نبی گزرے ہیں اور آدم (علیہ السلام) کے بعد نبوت سید نوح (علیہ السلام) ہی کی ذریت کے ساتھ خاص کردی گئی تھی جن کی پیدائش بائبل کے بیان کے مطابق تین ہزار سا قبل مسیح بیان کی گئی ہے لیکن نئے مفسرین بائبل اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل کے واقعات کے متعلق کوئی صحیح تاریخی اندازہ موجود نہیں اور قرآن کریم ایسے تاریخی حقائق کے پیچھے بالکل نہیں پڑتا کیونکہ وہ ایک تذکیرہ نصیحت کی کتاب ہے اور اس مضمون میں ان بکھیڑوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں ! قرآن کریم سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بعد ایک عظیم الشان نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ہوئے ہیں جن سے ایک نئے سلسلہ کی بنیاد پڑی۔ یعنی نبوت کا سلسلہ ان کے ساتھ خاص کردیا اور ان کا تذکرہ انشائ اللہ سورة ہود میں بتفصیل آئے گا۔ اور پھر نبوت کا یہ سلسلہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) تک نوح کے ساتھ خاص تھا اور بعد ازیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو جب نبوت عطا ہوئی تو یہ سلسلہ انہی کے ساتھ خاص کردیا گیا جو موسیٰ (علیہ السلام) تک بدستور جاری رہا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جب نبوت عطا ہوئی تو یہ سلسلہ انہی کے ساتھ خاص کردیا گیا۔ ” عمران “ یہ امر تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کے والد گرامی کا نام عمران بن بصیر تھا۔ اس لیے جو سلسلہ نبوت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ چلا تھا وہ آل عمران کے اندر داخل ہے گویا عمران سلستہ موسویہ کے قاإم مقام ہیں۔ مفسرین نے بھی اس جگہ انہیں عمران کو مراد لیا ہے جو سیدناموسیٰ اور ہارون کے والدماجد تھے۔ لیکن اکثر و بیشترمفسرین نے یہ خیا ال ظاہر کیا ہے کہ سیدنا مریم (علیہ السلام) کے والد ماجدکانام عمران بن ماتان ہے اگرچہ اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں تاہم سیدہ مریم مسیح (علیہ السلام) جو مریم کے بیٹے تھے آل عمران ہی میں شامل ہیں خواہ مریم کے والد ماجد ہونے کی حیثیت سے یا موسیٰ (علیہ السلام) کی ذریت میں داخل ہونے کی وجہ سے اور تفصیل اس کی آگے آئے گی۔ آدم (علیہ السلام) سے شروع کرنے میں اور پھر بعد کے قومی نبیوں کا ذکر کرنے میں ایک یہ اشارہ بھی ہے کہ جس طرح آدم اول کا پیغام بتقاضائے ضرورت تمام انبیا کرام سے ایک الگ نوعیت کا تھا اسی طرح نبی اعظم و آخر محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام بھی بتقاضائے ضرورت تمام انبیا کرام سے الگ نوعیت کا ہونا ضروری ہے۔ جس طرح آدم (علیہ السلام) کا پیغام اس کی ساری ذریت جو اس وقت موجود تھی کی طرف تھا گو وہ محدود تھا کیونکہ وہ موجودہ نسل انسانی کی ابتدا تھی اور حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی ہی ذریت کی طرف مبعوث ہوئے تھے اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کا پیغام بھی ساری نسل آدم یعنی نسل انسانی کیطرف ہوا گو وہ اس وجہ سے سب سے زیادہ وسیع ہوگیا کیونکہ آپ ﷺ کے وقت نسل انسانی تمام روئے زمین پر پھیل چکی تھی۔ آدم (علیہ السلام) اور نبی اعظم و آخر ﷺ کا پیغام تمام نسل انسانی کی طرف تھا اور درمیان میں جس قدر نبی ہوئے ان کا پیغام ایک ایک قوم کی طرف تھا۔ برگزیدگی جس کا ذکر انبیا کرام کے ذکر کے ساتھ کیا گیا جس کو اصطفی کے نام سے موسوم کیا یا ہے جس کے معنی اکثر چن لینا اور پسند کرنا کے لیے جاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان انبیائے کرام کو اپنے اپنے زمانے کے لوگوں یا قوموں میں سے چن لیا گیا یعنی انتخاب کرلیا گیا۔ کل دنیا لازمی طور پر مراد نہیں کیونکہ کل دنیا پر اصطفا کے ضروری تھا کہ ایک اور صرف ایک کا ذکر کیا جاتا۔ زیادہ کا ذکر خود دلیل ہے کہ اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر ہی اصطفا مراد ہوگا اور پھر کل انبیا کرام میں سے انتخاب شدہ یعنی نبی اعظم و آخر محمد ﷺ ہی ہیں۔
Top