Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 48
وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ
وَيُعَلِّمُهُ : اور وہ سکھائے گا اس کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور دانائی وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل
اللہ اس تیرے لڑکے کو کتاب و حکمت کا علم عطا فرمائے گا نیز توراۃ اور انجیل کا بھی
انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تعلیم براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے : 113: نبی کی تعلیم کا بندوبست اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہبی اور عطائی طور پر کیا جاتا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ دنیا والوں پر یہ بات ثابت کردی جائے کہ نبوت کسبی چیز نہیں ہے کہ کوئی انسان ترقی کرتے کرتے اس ترقی کے آخری زینہ تک ترقی کر جائے اور ایک وقت آئے کہ وہ نبی ہوجائے۔ نہیں بلکہ نبوت خالصتہً وہبی چیز تھی۔ اللہ نے جہاں نبوت کا عہدہ عطا کرنا ہوتا تھا اس کی حفاظت و نگہبانی کا خاص انتظام الٰہی اس طرح ہوتا تھا کہ خود اس شخص کو بھی جس کو نبی بنانا مقصود ہوتا تھا یہ بات معلوم نہ ہوتی تھی۔ گویا طبعی طور پر بنی ان باتوں سے متنفر ہوتا تھا جو بعد میں نبوت کے عہدہ کے خلاف ہوتی تھیں۔ یا نبی سے ان کا اعلان کرانا مقصود الٰہی ہوتا تھا۔ اس کی طبیعت کا میلان عام انسانوں سے ہٹ کر خاص اسی نہج کی طرف جاتا تھا جو نبوت کے لیے مخصوص تھا۔ جس کی ظاہری طور پر اگر کوئی علامت نظر آتی تھی تو وہ غوروفکر اور تدبر فی الکائنات کے سوا کچھ نہ تھا۔ سیدہ مریم کو جس موعود بیٹے کی بشارت دی جارہی تھی اس کے اوصاف بھی بتائے گئے تھے کہ تیرا لڑکا جس کی بشارت تجھے دی جارہی ہے وہ ایسا لڑکا ہوگا جس کو کتاب و حکمت کا علم عطا کیا جائے گا یہ گویا وعدہ الٰہی ہے اور تورات جو اس سے بہت پہلے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی اس کا کامل علم بھی اس کو عطا ہوگا اور انجیل بھی اس کو عطا کی جائے گی۔
Top