Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 49
وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَرَسُوْلًا
: اور ایک رسول
اِلٰى
: طرف
بَنِىْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اَنِّىْ
: کہ میں
قَدْ جِئْتُكُمْ
: آیا ہوں تمہاری طرف
بِاٰيَةٍ
: ایک نشانی کے ساتھ
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
اَنِّىْٓ
: کہ میں
اَخْلُقُ
: بناتا ہوں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنَ
: سے
الطِّيْنِ
: گارا
كَهَيْئَةِ
: مانند۔ شکل
الطَّيْرِ
: پرندہ
فَاَنْفُخُ
: پھر پھونک مارتا ہوں
فِيْهِ
: اس میں
فَيَكُوْنُ
: تو وہ ہوجاتا ہے
طَيْرًا
: پرندہ
بِاِذْنِ
: حکم سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاُبْرِئُ
: اور میں اچھا کرتا ہوں
الْاَكْمَهَ
: مادر زاد اندھا
وَالْاَبْرَصَ
: اور کوڑھی
وَاُحْىِ
: اور میں زندہ کرتا ہوں
الْمَوْتٰى
: مردے
بِاِذْنِ
: حکم سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاُنَبِّئُكُمْ
: اور تمہیں بتاتا ہوں
بِمَا
: جو
تَاْكُلُوْنَ
: تم کھاتے ہو
وَمَا
: اور جو
تَدَّخِرُوْنَ
: تم ذخیرہ کرتے ہو
فِيْ
: میں
بُيُوْتِكُمْ
: گھروں اپنے
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
ذٰلِكَ
: اس
لَاٰيَةً
: ایک نشانی
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر مبعوث کرے گا وہ لوگوں میں یہ منادی کرے گا کہ لوگو ! میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں ، تمہارے لیے مٹی سے ایسی چیز بنادوں جو پرند کی سی صورت رکھتی ہو پھر اس میں پھونک ماروں اور وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجائے ، اللہ کے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کر دوں اور (کفر کی موت) مرے ہوؤں کو زندہ اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو سب تمہیں بتلا دوں ، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھنے والے ہو تو یقینا ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی ہی نشانی ہے
سیدہ مریم (علیہ السلام) کے مبشر بیٹے کے دوسرے اوصاف کا ذکر : 114: ” اللہ تعالیٰ اس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر مبعوث کرے گا۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل بنی اسرائیل ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے انفرادی اور اجتماعی عیوب و نقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو۔ وہ اعتقاد و اعمال دونوں ہی قسم کی گمراہیوں کا مرکز و محور بن گئے تھے حتیٰ کہ اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کے قتل تک پر جری اور دلیر ہوگئے تھے۔ یہود کے بادشاہ ہیرودیس کے متعلق معلوم ہوچکا ہے کہ اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو اپنی محبوبہ کے اشارہ پر کیسے عبرت ناک طریقہ پر قتل کرادیا تھا اور اس نے یہ سفاکانہ اقدام صرف اس لیے کیا کہ وہ حضرت یحییٰ کی بڑھتی ہوئی روحانی مقبولیت کو برداشت نہ کرسکا اور اپنی محبوبہ سے ناجائز رشتہ پر ان کی نہی عن المنکر کی تاب نہ لاسکا اور یہ عبرت ناک سانحہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ہی میں پیش آچکا تھا۔ پھر سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جز و مذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ، فریب ، بغض و حسد جیسی بد اخلاقیوں کو تو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی اور اس بنا پر بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہار کرتے تھے اور ان کے علماء احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ یعنی تورات تک کو تحریف کیے بغیر نہ چھوڑا اور درہم و دینار پر خدا کی آیات کو فروخت کرڈالا یعنی عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کر ڈالا۔ یہود کی اعتقادی اور عملی زندگی کا مختصر اور مکمل نقشہ ہم کو یشیعا (علیہ السلام) کی زبانی خود تورات نے اس طرح دکھایا ہے : ” خداوند فرماتا ہے یہ امت (بنی اسرائیل) زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں۔ “ ایک جگہ اس طرح تحریر ہے : ” سن اے آسمان اور کان لگا اے زمین کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں نے لڑکوں کو پالا اور پوسا پر انہوں نے مجھ سے سرکشی کی۔ بیل اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا اپنے صاحب کی چرنی کو لیکن بنی اسرائیل نہیں جانتے۔ میرے لوگ کچھ نہیں سوچتے۔ آہ خطا کار گروہ۔ بد کرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بد کرداروں کی نسل ! مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا۔ اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہوگئے۔ تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے ؟ تم سر بیمار ہے اور دل بالکل سست ہے۔ “ (یسعیاہ 5 ۔ 1:1) بہرحال انہی تاریک حالات میں جب کئی ایک نبیوں کے قتل کے واقعات بھی ہوچکے تھے اور بنی اسرائیل نے خدا کے حکموں کے خلاف بغاوت و سرکشی کی حد کردی تھی تب وہ وقت سعید آپہنچا کہ جس مبارک بچہ نے حضرت مریم کی آغوش میں پرورش پاکر اپنے بچپنے کے زمانہ ہی میں حق سنا کر بنی اسرائیل کو حبرت میں ڈال دیا تھا سن رشد کو پہنچتے ہی اس نے یہ اعلان کر کے کہ ” وہ خدا کا رسول اور پیغمبر ہے اور رشدو ہدایت خلق کا فرض منصبی ہے۔ “ قوم میں ہلچل پیدا کردی۔ وہ شرف رسالت سے مشرف ہو کر اور حق کی آواز بن کر آیا اور اپنی صداقت و حقانیت کے نور سے تمام اسرائیل دنیا پر چھا گیا۔ اس مقدس ہستی نے قوم کو للکارا اور حبار کو علمی مجلسوں ، راہبوں کے خلوفت کدوں ، بادشاہ اور امراء کے درباروں اور عوام و خواص کی محفلوں میں حتیٰ کہ کو چہ کو چہ ، محلوں اور بازاروں میں شب و روز یہ پیغام حق سنایا۔ ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنا رسول اور پیغمبر بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور تمہاری اصلاح کی خدمت میر سپرد فرمائی ہے اس کی جانب سے پیغام ہدایت لے کر آیا ہوں اور تمہارے ساتھ میں خدا کا جو قانون یعنی توراة ہے اور جس کو تم نے اپنی جہالت اور کجروی سے پس پشت ڈال دیا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مزید تکمیل کے لیے خدا کی کتاب انجیل لے کر آیا ہوں۔ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کرے گی اور آج جھوٹ اور سچ کے درمیان فیصلہ ہو کر رہے گا۔ سنو اور سمجھو اور اطاعت کے لیے خدا کے حضور جھک جاؤ کہ یہی دین و دینا کی فلاح کی راہ ہے۔ “ اب ان حقائق اور ان کے عواقب و نتائج کو قرآن کریم کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے الفاظ کا ترجمہ سنیے اور ” احقائق حق و ابطال باطل “ کے لطف سے بہرہ مند ہو کر عبرت و موغطت حاصل کیجیے کیونکہ ” تذکیر بایام اللہ “ سے قرآن کریم کا قصد عظیم یہی بصیرت و عبرت ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور پھر دیکھو ہم نے تمہاری راہنمائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے در پے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا اور بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سچائی اور روشن نشانیاں دیں اور روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا لیکن ان میں سے ہر دعوت کی تم نے مخالفت کی پھر کیا تمہارا شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آئے جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہو تو تم اس کے مقابلہ میں سرکشی کر بیٹھو اور کسی کو جھٹلاؤ اور کسی کو قتل کر دو ۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ یہ اعتقاد کی پختگی کی وجہ سے نہیں بلکہ انکارحق کے تعصب کی پھٹکار ہے اس لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعوت حق سنیں اور قبول کریں۔ (البقرہ 2 : 86 ، 87 ) ایک جگہ ارشاد ہے : ” اس دن اللہ کہے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! میں نے تم پر اور تمہاری ماں پر جو انعام کیے ہیں انہیں یاد کرو۔ جب ایسا ہوا تھا کہ میں نے روح القدس سے تمہیں قوت دی تھی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے چھوٹی عمر میں بھی جبکہ ابھی بچہ کے جھولا جھولنے کا وقت ہوتا ہے اور بڑی عمر میں بھی کہ تم جوان ہوگئے تھے جب عجمعوں میں منادی کیا کرتے تھے اور جب ایسا ہوا تھا کہ میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل سکھلا دی تھی۔ “ (المائدہ 5 : 110 ) آیات بینات کی ہیں ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کیا نشانی لائے تھے ؟ : 115: حق و صداقت کے تسلیم وانقیاد میں انسانی فطرت ہمیشہ ہی سے دو طریقوں سے مانوس رہی ہے ایک یہ کہ مدعی حق کی حقانیت و صداقت دلائل کی قوت اور براہین کی روشنی کے ذریعے ثابت اور واضح ہوجائے اور دوسرا طریقہ یہ کہ دلائل وبراہین کے ساتھ ساتھ منجانب اللہ اس کی صداقت کی تائید میں امور عجیبہ کا مظاہرہ اس طرح ہو کہ عوام و خواص اس کے مقابلہ سے عاجز اور درماندہ ہوجائیں اور ان دونوں طرح کے دلائل وبراہین نبوت کے لیے مخصوص رہے ہیں کیونکہ پہلے طریق کے ساتھ یہ دوسرا طریق انسان کے عقت و فکر اور اس کی نفسیاتی کیفیات میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے کہ ان کا وجدان یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہورجاتا ہے کہ داعی یعنی نبی و رسول کا یہ عمل خود اس کا عمل نہیں بلکہ اس کے ساتھ خدا کی قوت کام کر رہی ہے۔ اور بلاشبہ یہ اس کے صادق ہونے کی دلیل ہوتی تھی۔ قرآن کریم نے اکثر و بیشتر مقامات پر پہلے طریق دلیل کو ” حجة اللہ “ اور ” برہان “ اور ” حکمة “ سے تعبیر کیا ہے اور دوسرے طریق دلیل کو ” آیات بینات “ اور ” مبصرہ “ وغیرہ ناموں سے یاد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ خواہ وہ تورات و انجیل و زبور ہوں یا قرآن کریم سب کی آیات کو ” آیات بینات “ ہی کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور عوام کی زبان میں ان ہی کو ” معجزات “ کا نام دیا جاتا ہے اور اس طریق میں وہ تمام ” پیشین گوئیاں “ ” تحدیات “ یعنی چیلنج وغیرہ بھی آتے ہیں جن کا وقتاً فوقتاً لسان انبیاء سے اعلان کرایا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے معجزہ کے لیے تحدی یعنی چیلنج لازم و ضروری قرار دیا ہے۔ پھر ان سب معجزات میں سے بڑا معجزہ خود ” منصب نبوت و رسالت “ اور دوسرا بڑا معجزہ ” پیغام رسالت “ ہے ، کیوں ؟ اس لیے ایک عام انسان جس نے کسی کے سامنے تعلیم و تعلم کے لیے زانوتہ بھی نہ کیے ہوں یکایک ” منصب نبوت و رسالت “ کا اعلان کردے اور پھر اپنے اعلان کے ساتھ ہی جس چیز کا اعلان کر رہا ہے حجتہ و دلیل اور برہان بھی پیش کر دے تو گویا دونوں کام بیک وقت ہوگئے اعلان بھی اور تحدی یعنی چیلنج بھی اور پھر اپنے چیلنج کے ساتھ ہی دلیل وبرہان بھی۔ پھر جو وہ ” پیغام رسالت و نبوت “ پیش کرے اس پر تحدی پیش کر دے کہ ” جو میں پیغام لایا ہوں تم سب مل کر اس کی مثل پیغام بنا کرلے آؤ “ ” جس طرح میں خالصتہً اللہ کے لیے پیغام الٰہی پیش کرتا ہوں اور تم سے کچھ مزدوری اور صلہ طلب نہیں کرتا “ تم بھی ایسا ہی کرو۔ لیکن اس کے زمانہ میں ایک بھی ایسا نہ ہوا جو اس کے اس چیلنج کو قبول کرے اور پھر رہتی دنیا تک ایک بھی اس کی مثال نہ پیش کی جاسکے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کیا نشانی لائے تھے ؟ ظاہر ہی ہے کہ وہ ” منصب نبوت و رسالت “ بھی لائے تھے اور ” پیغام رسالت “ بھی۔ کیا یہ نشانی نہ تھی ؟ بالک یہ نشانی تھی لیکن اس کا ذکر کرلینے کے بعد جو ارشاد فرمایا کہ : اَنِّىْ قَدْ جِئْتُُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں حالانکہ قبل ازیں آپ نے اعلان کردیا تھا کہ وَرَسبوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَآئِیْلَ ۔ وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَائِیْلَ عیسیٰ (علیہ السلام) کا اعلان نہیں ہے بلکہ یہ بشارت کا حصہ ہے جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے تولد ہونے سے پہلے سیدہ مریم کو دی گئی تھی اور اس میں مریم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا کہ ” اسے یعنی تیرے بیٹے کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر مبعوث بھی کروں گا۔ “ گویا یہ بشارت کا حصہ تھا۔ جو سیدہ مریم کو عیسیٰ جیسے بیٹے کے تولد ہونے کو دی گئی۔ آگے عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیدا ہونے اور پرورش پانے کے تذکرہ کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس جگہ اس کے تذکرہ کی ضرورت نہ تھی اور یہ جو فرمایا کہ وہ منصب رسالت پر فائز کیا جائے گا اور ساتھ ہی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیغام کا تذکرہ کردیا کہ وہ ” پیغام رسالت “ جو لے کے آئے گا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نشانی ہوگی رہی یہ بات کہ وہ پیغام رسالت کیا ہے جس کو اس جگہ نشانی فرمایا گیا ہے ؟ وہ ہے : اَنِّیْ اَخْلُقُ لَكُمْ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰهِ کہ میں تمہارے لیے مٹی سے ایسی چیز بنادوں جو پرند کی سی صورت رکھتی ہو پھر اس میں پھونک ماروں اور وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجائے۔ “ یہ گویا ان نشانات نبوت یعنی ” پیغام رسالت “ میں سے ایک پیغام یا ایک نشانی ہے بالکل اسی طرح جس طرح انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ سے نشانیاں دی جاتی رہیں اور ان کو تمثیلات میں بیان کیا جاتا رہا۔ یہ بھی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی تمثیلات میں سے ایک تمثیل ہے جن کا ذکر قرآن کریم نے کئی ایک جگہ پر کیا ہے اور یہ بات بھی قبل ازیں بتائی جا چکی ہے کہ کلام الٰہی جو لسان نبوت سے جاری کیا جاتا رہا اس میں تمثیلات کثرت سے استعمال کی گئیں تاکہ ایک بہت بڑا مضمون چند الفاظ میں بیان کردیا جائے جس کو ہمارے ہاں محاورة یوں کہا جاتا ہے کہ ” فلاں نے دریا کو کو زہ میں بند کردیا “ اور خصوصاً سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کو زیادہ ہی تمثیلات میں بیان کیا گیا ہے کیوں ؟ اس لیے کہ انجیل میں اس کو انہی تمثیلات میں بیان کیا گیا تھا اور پھر قرآن کریم میں بھی بالکل اسی طرح بیان کیا جس طرح انجیل میں بیان کیا گیا تھا۔ چناچہ اس کے متعلق سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے ان سے سوال بھی کیا تھا کہ آپ تمثیلوں میں باتیں کیوں کرتے ہیں ؟ جس طرح انجیل میں بیان کیا تھا۔ ” شاگردوں نے پاس آکر اس سے کہا کہ ان تمثیلوں میں کیوں باتیں کرتا ہے ؟ اس نے جواب میں ان سے کہا اس لیے کہ تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر ان کو نہیں دی گئی۔ کیونکہ جس کے پاس ہے اسے دیا جائے گا اور اس کے پاس زیادہ ہوجائے گا اور جس کے پاس نہیں ہے اس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اس کے پاس ہے۔ میں ان سے تمثیلوں میں اس لیے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔ (متی 14 ۔ 10:13) متی اور لوقا کی انجیل ان تماثیل سے بھری ہوئی ہیں۔ ایک جگہ تحریر ہے کہ : ” اس ھنے ایک اور تمثیل ان کو سنائی کہ آسمان کی بادشاہی اس خمیر کی ماند ہے جسے کسی عورت نے لے کرتین پیمانہ آٹے میں ملا دیا اور وہ ہوتے ہوتے سب خمیر ہوگیا۔ یہ سب باتیں یسوع نے بھیڑ سے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے وہ ان سے کچھ نہ کہتا تھا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ میں تمثیلوں میں اپنا منہ کھولوں گا۔ میں ان باتوں کو ظاہر کردوں گا جو بنائے عالم سے پوشیدہ رہی ہیں۔ “ (متی 34 , 33:13) قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں ” اَنِّىْ اَخْلُقُ لَكُمْ “ کے جو الفاظ ہیں وہ دراصل اس تمثیل ہی سے متعلق ہیں جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ خلق کے معنی دراصل التقدیر المستقیم کے ہیں یعنی صحیح اندازہ اور اس کا استعمال دو طرح پر ہے۔ ایک کسی چیز کا بالکل نیا وجود میں لانا جس کی نہ کوئی اصل ہو اور نہ کوئی نمونہ جیسے ارشاد الٰہی ہے : خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ” پیدا کرنے والا آسمان اور زمین کا “ اور دوسری جگہ خود ہی قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ” بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ “ یعنی بغیر کسی میٹریل کے پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا “ معلوم ہوا کہ یہ وہ خلق ہے جو بغیر مادہ اور آلہ کے ہے اور دوسرا ایک چیز سے دوسری چیز کے وجود میں لانے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے ” خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ “ کہ انسان کو اس نے پیدا کیا نطفہ ہے۔ ان دونوں طرح کے خلق کا تعلق گویا نیستی سے ہستی میں لانے کا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے اور کسی بھی مخلوق کا یہ فعل نہیں ہو سکتا۔ چناچہ قرآن کریم نے خود ہی اس کی وضاحت کردی ہے کہ یہ فعل اللہ کا ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے کا یہ فعل نہیں ہو سکتا خواہ وہ کوئی ہو۔ ارشاد الٰہی ہے : اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا کَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ 1ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَّ ہُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ. (الرعد 13 : 16 ) ” کیا یہ بات ہے کہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اس طرح مخلوقات پیدا کیں جس طرح اللہ نے پیدا کی ہے اس لیے پیدا کرنے کا معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا ؟ تم ان سے کہو اللہ ہی ہے جو ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ اپنی ساری باتوں میں یگانہ ہے سب کو مغلوب رکھنے والا۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ 1ؕ ہَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَیْءٍ 1ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ. (الروم 30 : 40 ) ” اللہ وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو۔ پاک ہے وہ ذات اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کر رہے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا گیا : هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ 1ۖ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ. (فاطر 35 : 3) ” كها اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے۔ نہیں کوئی معبود مگر اس کی ذات تم کدھر بھٹکے جا رہے ہو۔ “ ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے : خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ 1ؕ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ. هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ 1ؕ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ. (لقمان 31 : 10 ، 11) ” اس اللہ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون نہیں تھامے ہوئے او زمین میں مضبوط پہاڑ ڈال دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلکے نہیں اور اس میں ہر قسم کے حیوانات پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائیں۔ یہ سب چیزیں تو اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اب مجھے یہ تو دکھاؤ کہ اسکے سوا اوروں نے کیا پیدا کیا دراصل یہ ظالم صریح گمراہی میں مبتلا ہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : قُلْ اَرَءَیْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ 1ؕ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ 1ۚ اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ کِتٰبًا فَهُمْ عَلٰى بَیِّنَتٍ مِّنْهُ 1ۚ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا . (فاطر 35 : 40 ) ” اے پیغمبر اسلام آپ ﷺ ان سے کہہ دیں بھلا دیکھو تو جن خود ساختہ شریکوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی بتاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کس قدر شرکت ہے ؟ کیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے جس کی بناء پر وہ کوئی واضح سند رکھتے ہیں ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم ایک دوسرے کو نرے فریب کے وعدے دے رہے ہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے۔ : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ 1ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ 1ؕ وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْـًٔا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ۠ مِنْهُ 1ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ. (الحج : 22 : 73 ) ” اے لوگو ! ایک مثال سنائی جاتی ہے غور سے سنو اللہ کے سوا جن خود ساختہ معبودوں کو تم پکارتے ہو انہوں نے ایک مکھی تک پیدا نہیں کی۔ اگر تمہارے یہ سارے معبود اکٹھے ہو کر زور لگائیں جب بھی وہ پیدا نہ کرسکیں اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ایک مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے تو ان میں قدرت نہیں کہ اس سے چھڑا لیں تو دیکھو طلب گار بھی یہاں درماندہ ہوا اور مطلوب بھی درماندہ یعنی مرید بھی عاجز اور پیر بھی عاجز۔ “ اس طرح کی آیات کو اگر جمع کیا جائے تو بیسیوں سے بھی زیادہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ خالق صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے اور اس کے سوا کوئی بھی نہیں جس نے اس کائنات میں کوئی ادنیٰ سی چیز بھی پیدا کی ہو اور نہ ہی کوئی پیدا کرسکتا ہے۔ خالق کل وہی ہے جو اللہ ہے اور اللہ وہی ہے جو خالق کل ہے۔ انسانوں کے حق میں بھی لفظ خلق دو معنوں میں بولا جاتا ہے ایک اندازہ کرنے کے حق میں دوسرا جھوٹ موٹ کسی چیز کے گھڑ لینے کے معنی میں : والخلق لا یستعمل فی کافة الناس الا عی وجھین احدھما فی معنی التقدیر… والثانی فی الکذب (امام راغب) اندازہ کرنے کے معنی کی مشہور مثال شاعر کا قول ہے : ولا نت تفری ما خلقت وبعض القوم یخلق ثم لا یفر یعنی تو جو ارادہ یا اندازہ یا تجویز کرتا ہے اسے کر گزرتا ہے اور عمل میں لے آتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ارادے ، اندازے اور تجوزیں تو کرتے رہتے ہیں مگر ان کو عمل میں نہیں لاتے اس طرح ضرب المثل ہے ما خلقت الا فریت وما وعدت الا وفیت یعنی میں نے کوئی تجویز نہیں کی مگر اسے عمل میں لا دکھایا اور میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا مگر اسے پورا کردکھایا اور جھوٹ کے معنوں میں تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا (العنکبوت 29 : 17 ) ” تم جھوٹ گھڑتے ہو۔ “ مسیح (علیہ السلام) بھی ایک انسان ہی تھے بلاشبہ وہ اللہ کے رسول بھی تھے لیکن ان کے مخلوق ہونے سے آخر کون انکار کرسکتا ہے ؟ پھر مخلوق اللہ کی صفت خالقیت کا کیونکر مظاہر کرسکتی ہے ظاہر ہے کہ یہ آیت تمثیلات قرآن میں سے ایک تمثیل ہی ہو سکتی ہے اور تمثیل ہی ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ مسیح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں تمہارے غوروفکر اور تفہیم کے لیے تمہاری فطرت اور جبلت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا کر بیان کرتا ہوں کہ جیسے پرندوں میں اڑنے کی قابلیت ہوتی ہے مگر وہ پیدا ہوتے ہی نہیں اڑتے ہاں ! کچھ دونوں کے بعد پرزے پیدا ہونے پر اڑنے لگتے ہیں اسی طرح تمہارا حال ہے کہ میں تمہارے اندر کلام نبوت پھونکتا ہوں تو اس کا اثر پاک طینت لوگوں پر ہوتا ہے اور وہ ایمان لے آتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کے مددگار بن جاتے ہیں۔ چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کے نفخہ نبوت کا یہ اثر تھا کہ کچھ لوگ اس طرح پکار اٹھے : نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ 1ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ 1ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ . رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ. (العنکبوت 29 : 17) ” ہم اللہ کے کلمہ حق کے مدد گار ہیں۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اے عیسیٰ (علیہ السلام) آپ گواہ رہیں کہ اس یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں ہمارا سر جھک گیا۔ خدایا ! جو کچھ تو نے نازل کیا ہے اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہم نے تیرے رسول کی پیروی کی پس ہماری گنتی بھی ان لوگوں میں ہو جو حق کی شہادت دینے والے ہیں۔ “ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّ 1ۙ وَنَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ. (المائدہ 5 : 84) ” اور کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کے کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کر دے ؟ “ بلاشبہ مفسرین اسلام کی کثیر تعداد یہ کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی پرند بنایا کرتے تھے اور مشہور یہ ہے کہ آپ نے سوائے چمگادڑ کے اور کوئی پرندہ پیدا نہیں کیا۔ پھر اس جگہ ہمارے مفسرین دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں کچھ مفسرین کا خیال یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے تو آپ کچھ گیلی مٹی لے کر اس کی پرند کی سی شکل بنا کر بچوں کے سامنے اس میں پھونک لگاتے تو وہ پرند واقعی اڑ جاتے۔ اور کچھ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ ایک اختراعی معجزہ تھا کیونکہ بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ چمگادڑ بنا کر اڑاؤ تب ہم ایمان لائیں گے اس لیے عیسیٰ (علیہ السلام) نے چمگادڑ کو بنایا۔ یہاں پہنچ کر ہمارے ان مفسرین کے پھر دو گروہ ہوئے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے یہ بنائے گئے چمگادڑ جب تک نظر آتے رہتے زندہ اڑائی دیتے تھے اور جب نظر سے غائب ہوجاتے تو مر کر گر جاتے تھے تاکہ اللہ کے بنائے گئے چمگادڑوں میں مل کر استشباہ پیدا نہ کریں اور کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ چمگادڑ سیدنا مسیح (علیہ السلام) ہی کی پیدائش میں سے ہیں جو آج بھی اڑتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ انہیں چمگادڑوں کی نسل ہے۔ مفسرین کا یہ اختلاف کیوں ہوا ؟ وجہ اختلاف واضح ہے کہ ایک صاحب شعور جب ” اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ “ اور ” اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَوْا مِنَ الْاَرْضِ “ ، ” قُلْ اللّٰهُ خَالِقُ کُلِّ شَىْ “ اور ” ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ “ اور ” لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْهُ لَهُ “ جیسے ارشادات خداوندی پڑھے گا تو اس کو کی کوئی نہ کوئی تاویل کرنا ہوگی جب کہ وہ قرآن کریم میں تاویل کو جائز سمجھتا ہے۔ اور ہمارے مفسرین کی اکثریت تاویل کو جائز ہی سمجھتی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی نے کوئی تاویل کی اور کسی نے کوئی جس کا نتیجہ اختلاف ہی تھا اور وہی ہوا۔ چونکہ ہماری تفہیم کے مطابق تو قرآن کریم میں کوئی تاویل جائز ہی نہیں جیسا کہ اصول تفسیر میں 15 نمبر پر اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ ہم اس پوری آیت مبارکہ کو اور اس جیسی بہت سی آیات کریمات کو تمثیلات قرآنی میں سے ایک تمثیل سمجھتے ہیں جیسا کہ اصول تفسیر ہی کے نمبر 13 میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ قرآن کریم کی سولہویں سورت جس کو النحل کا نام دیا گیا ہے کی آیت نمبر 20 اور 21 میں ارشاد الٰہی اس طرح ہوا ہے : وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَؕ0020 اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ 1ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ 1ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (رح) 0021 ” اللہ کے سوا جن ہستیوں کو یہ پکارتے ہیں ان کا تو حال یہ ہے کہ وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں وہ مردے ہیں نہ کہ زندگی رکھنے والے انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب موت سے اٹھائے جائیں گے۔ “ اس محولہ بالا آیات سے صرف ایک آیت قبل اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ 1ؕ” کیا جو خلق کرتا ہے وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جو خلق نہیں کرتا ؟ “ اب اگر مسیح (علیہ السلام) کا ” خلق طیور “ ماناجائے اور اللہ تعالیٰ تو ” خالق طیور “ ہے ہی تو مسیح (علیہ السلام) مَنْ یَّخْلُقُ ہونے کی وجہ سے انسانوں جیسا نہ ہوا بلکہ خدا جیسا ہوا کیونکہ خدا بھی خالق طور ہے اور مسیح (علیہ السلام) بھی تو وہ آیات کریمات جن سے صاف صاف واضح ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خالق کسی شے کا نہیں ہے۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح خود قرآن کریم میں اختلاف ہوجائے گا اور ایسا ہونا محال ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم کا من عند اللہ ہونا اسی سبب سے ہے کہ اس میں اختلاف نہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے : لَوْكَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف ہوتا۔ اس لیے یہ کسی حال میں بھی تسلیم نہیں کہ اللہ تعالیٰ بار بار اسی قانون کا اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی چیز کا خالق نہیں اور پھر یہ بتا کر کہ جن لوگوں کو معبود بنایا گیا ہے انہوں نے ہرگز ہرگز کسی چیز کو پیدا نہیں کیا پھر خود ہی یہ کہه دے کہ مسیح نے بھی کچھ پرند پیدا کیے تھے۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ یہ ایک تمثیل ہے جو محض تفہیم قوم کے لیے بیان کی گئی ہے کہ میرا کام نفخہ نبوت ہے اور میں اپنا فرض ادا کرتا رہوں گا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے گا اپنے قانون مشیت کے مطابق دے گا اور جس کو ہدایت پانا مشیت ایزدی میں موجود ہے وہ میرے اس نفخہ نبوت سے فائدہ حاصل کر کے طیر یعنی پرند کی طرح اوپر کو پرواز کر کے جنتی زندگی کو حاصل کرلے گا اور جس کو ہدایت پانا مشیت ایزدی میں نہیں ہے وہ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ زمین کے ساتھ لگ کر یعنی زمین کی طرف مائل ہو کر صرف اور صرف دنیوی زندگی کا ہو کر رہ جائے گا۔ پھر جنہوں نے نفخہ نبوت کو قبول کیا ان کا ذکر قرآن کریم نے ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ “ جیسی آیات کریمات میں کردیا اور جو زمین کی طرف مائل ہوئے ان کا ذکر ” فَلَمَّا اَحَسَّ مِنْھُمْ الْكُفُرَ “ ، ” فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ جیسی آیات میں کردیا گیا جو عنقریب آگے آرہی ہیں۔ رہی یہ بات کہ مسیح (علیہ السلام) کا پیدا کرنا بذاتہ نہ تھا بلکہ ” بِاِذْنِاللّٰهِ “ تھا تو یہ بات اس وقت ہی کہی جاسکتی ہے جب یہ تسلیم ہوجائے کہ کچھ کام دنیا میں بغیر اذن اللہ کے بھی ہوتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی تعلیم سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ تو یہی ہے کہ پوری کائنات میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ، ہو رہا ہے یا ہوگا سب ” باذن اللہ “ تھا ، ہے اور ہوگا۔ باہر جانے کی ضرورت نہیں خود قرآن کریم نے ” بِاِذْنِ اللّٰهِ “ کا لفظ بیسیوں بار استعمال کیا ہے۔ قرآن کریم ہی کے دیکھ لینے سے یہ بات واضح ہوجائے گی۔ کتاب اللہ میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مقامات پر یہ لفظ کبھی ” بِاِذْنِ اللّٰهِ “ ، ” بِاِذْنِیْ “ ، ” بِاِذْنِ رَبِّهٖ “ ، ” بِاِذْنِ رَبِّھَا “ ، ” بِاِذْنِ رَبِّھِمْ “ اور ” فَبِاِذْنِ اللّٰهِ “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں لیکن معانی و مفہوم کے لحاظ سے کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے مفسرین کا سارا زوراسی بات پہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ پیدا کیا وہ چونکہ ” بِاِذْنِ اللّٰهِ “ تھا اس لیے دراصل وہ تخلیق اللہ کی تھی عیسیٰ (علیہ السلام) تو صرف درمیان میں ایک نشانی کے طور پر تھے۔ اس طرح بات سے بات نکالی گئی فرضی باتیں اور قصے گھڑے گئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تفصیل میں گئے بغیر ہم قرآن کریم کی ان آیات کا ایک مختصر خاکہ پیش کر کے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیں کہ وہ خود براہ راست قرآن کریم پر غور کریں اور جس نتیجہ پر وہ پہنچیں وہی ان کے لیے یقیناً مفید ہوگا اور اس خاکہ کے بعد ہم اپنی تفہیم بھی بیان کردیں گے۔ ان شاء اللہ ۔ ” بِاِذْنِ اللّٰهِ “ کے الفاظ : 1 قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا الِّجِبْرِیْلَ فَاَنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ (البقرہ 2 : 97 ) ” اے پیغمبر اسلام ! یہ اللہ کا کلام ہے جو جبرئیل نے ” اللہ کے حکم سے “ تمہارے دل میں اتارا ہے پھر جبریل سے دشمنی ان کی کیسی ؟ “ 2 وَمَاھُمْ بِضَارِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ. (البقرہ 2 : 102 ) ” وہ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ ” اللہ کے حکم سے “ کسی کو نقصان پہنچنے والا ہو اور نقصان پہنچ جائے۔ “ 3 کَمْ مِّنْ فِئَةً قَلْیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرًةً بِاِذْنِ اللّٰهِ (البقرہ 2 : 249 ) ” کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر ” اللہ کے حکم سے “ غالب آگئیں۔ 4 فَھَزَمُوسھُمْبِاِذْنِ اللّٰهِ ” انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے دشمنوں کو ہزیمت دی۔ “ 5 وَمَا کَانَ لِنَفْسٍی اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (آل عمران 3 : 145 ) ” اور یاد رکھو ” اللہ کے حکم کے بغیر “ کوی جان مر نہیں سکتی۔ “ 6 وَمَااَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فِبِاِذْنِ اللّٰهِ (ال عمران 3 : 166 ) ” اور دیکھو دو گروہوں کے مقابلے کے دن یعنی جنت احد میں جو کچھ پیش آیا تھا تو ” اللہ ہی کے حکم سے “ پیش آیا تھا۔ “ 7 وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ (النساء 4 : 64 ) ” اے پیغمبر اسلام ! ہم نے جس کسی کو بھی منصب رسالت دے کر دنیا میں کھڑا کیا تو اس لیے کیا کہ ” اللہ کے حکم سے “ اس کی اطاعت کی جائے۔ 8 وَاِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْا اَلْفَسیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ (الانفال 8 : 66) ” اب اگر تم میں ایک سو آدمی ہوں گے تو ” اللہ کے حکم سے “ اپنے سے دوگنی تعداد یعنی دو سو دشمنوں پر غالب رہیں گے۔ “ 9 وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (یونس 10 : 100) ” اور یاد رکھو کہ کسی جان کے اختیار میں نہیں کہ وہ ایمان سے آئے مگر یہ کہ ” اللہ کے حکم سے۔ “ 10 وَمَا کان لِرَسُوْلٍ اِلَّا اَنْ یَّاْتِىْ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (الرعد 3 : 38 ) ” کسی رسول کے لیے یہ بات نہ ہوئی کہ وہ خود کوئی نشان لا دکھاتا مگر ” اللہ کے حکم سے “ ایسا ہوا۔ “ 11 وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بَاْخَیْرَاتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ (فاطر 33 : 52) ” اور ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو ” اللہ کے حکم سے “ تمام اعمال حسنہ اور اعمال صالحہ میں اوروں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ “ 12 وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِىَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (المؤمن 40 : 78 ) ” کسی رسول کے لیے یہ بات نہ ہوئی کہ وہ خود کوئی نشانی دکھائے مگر ” اللہ ہی کے حکم سے “ ایسا ہوا۔ “ 13 لَیْسَ بِضَارِھِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰه (المجادلہ 58 : 10 ) ” حالانکہ بغیر ” اللہ کے حکم کے “ یعنی مشیت الٰہی کے یہ سرگوشیاں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ 14 مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْھَا قَائِمَةً عَلٰى اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ (الحشر 5 : 59 ) ” اے مسلمانو ! جن کھجوروں کے درختوں کو تم نے کاٹ ڈالا یا جن کو ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا یہ سب ” اللہ ہی کے حکم سے “ ایسا ہوا ہے۔ “ 15 مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (التغابن 64 : 11 ) ” كوئی مصیبت نہیں آتی مگر ” اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے “ آتی ہے۔ “ 16 فَانْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًابِاِذْنِ اللّٰهِ (آل عمران 3 : 49 ) ” پھر میں اس میں پھونک ماروں اور وہ ” اللہ کے حکم سے “ پرند ہوجائے۔ “ ” باننہ “ کے الفاظ درج ذیل ہیں۔ 17 فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ.(البقرہ 2 : 213 ) ” پس جو لوگ انبیاء کرام پر ایمان لے آئے انہیں ” اللہ نے اپنے حکم سے “ اس حق کا راستہ دکھا دیا۔ “ 18 وَاللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ. (البقرہ 2 : 221 ) ” اللہ اپنے حکم سے “ تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔ “ 19 مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ. (البقرہ 2 : 255 ) ” كون شخص ہے جو اس کے سامنے “ اس کے حکم “ کے بغیر کسی کی شفاعت کے لیے زبان کھلوے۔ “ 20 وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ. (آل عمران 3 : 152) ” اور دیکھو یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے اپنا وعدہ نصرت سچا کر دکھایا تھا جب کہ تم ” اس کے حکم سے “ دشمنوں کو بےدریغ تہ تیغ کر رہے تھے۔ “ 21 وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ (المائدہ 5 : 16 ) ” اور اپنے حکم سے انہیں تاریکیوں سے نکالتا ہے۔ “ 22 یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ. (ھود 11 : 105 ) ” جب وہ دن آپہنچے گا تو کسی جان کی مجال نہ ہوگی کہ بغیر ” اس کے حکم کے “ زبان کھولے۔ “ 23 وَ یُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ. (الحج 22 : 65 ) ” اس نے آسمانوں کو تھام رکھا ہے کہ زمین پر گریں نہیں اور کریں تو ” اس کے حکم سے “ جب بھی گریں۔ “ 24 دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ (الاحزاب 33 : 46 ) ” اور اے پیغمبر اسلام ! تو ” اس کے حکم سے “ اللہ کی وفاداری کی دعوت دینے والا ہے۔ “ 25 اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ (الشوریٰ 42 : 51 ) ” اور وہ ” اپنے حکم سے “ جو کچھ چاہے وحی کر دے یا کسی فرشتے کو وحی دے کر بھیج دے۔ “ ” بِاِذْنِ رَبِّهٖ “ ” بِاِذْنِ رَبِّھِمْ “ ” بِاِذْنِ رَبِّھَا “ اور ” بِاِذْنِىْ “ ۔ 26 وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ. (الاعراف 7 : 58 ) ” اور دیکھو اچھی زمین ” اپنے پروردگار کے حکم سے “ اچھی پیداوار ہی نکالتی ہے۔ “ 27 وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ. (سبا 34 : 12 ) ” اور جنات میں سے بعض وہ تھے جو سلیمان کے ” رب کے حکم سے “ اس کے سامنے کام کرتے تھے۔ “ 28 وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ (ابراہیم 14 : 23 ) ” اور دیکھو جو لوگ ایمان لائے تھے جنہوں نے نیک کام کیے تھے وہ نعیم ابدی کے باغوں میں داخل ہوگئے ان کے نیچے نہریں بہه رہی ہیں وہ ” اپنے پروردگار کے حکم سے “ ہمیشہ انہیں میں رہیں گے۔ “ 29 تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ. (القدر 97 : 4 ) ” ملائکہ سماوی اور روح الٰہی یعنی جبریل (علیہ السلام) کا اس میں ” ان کے رب کے حکم سے “ ہر طرف سے نزول ہوتا ہے۔ “ 30 تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا کُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا . (ابراہیم 14 : 25 ) ” وہ درخت “ اپنے رب کے حکم سے “ ہر وقت پھل پیدا کرتا رہتا ہے۔ 31 وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ 1ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ. (المائدہ 5 : 110 ) ” اور جب ایسا ہوا تھا کہ تم اے عیسیٰ ” میرے حکم سے “ مٹی سے ایک پرندے جیسی شکل کی چیز بناتے تھے پھر اس میں پھونک مارتے تھے تو ” میرے حکم سے “ وہ پرندہ بن جاتا تھا اور جب ایسا ہوا تھا کہ تم ” میرے حکم سے “ اندھوں اور برص والوں کو درست کرتے تھے اور جب ایسا ہوا تھا کہ ” میرے حکم سے “ مردوں کو موت کی حالت سے باہر لے آتے تھے۔ “ اوپر درج کی گئی آیات کو قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھو اور ان کے ترجمہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کوئی کام ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ دکھ ہے تو اللہ کے حکم سے سکھ ہے تو اللہ کے حکم سے۔ مصیبت کا پہنچنا ہے تو اللہ کے حکم سے۔ موت کا آنا ہے تو اللہ کے حکم سے۔ فتح ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے۔ شکست کھانا ہے تو اللہ کے حکم سے۔ کوئی غالب آتا ہے تو اللہ کے حکم سے کوئی مغلوب ہوتاے تو اللہ کے حکم سے۔ کسی کو ایمان نصیب ہوتا ہے تو اللہ کے حکم سے۔ رسول پر کوئی نشانی آترتی ہے تو اللہ کے حکم سے۔ کوئی جنت میں جائے گا تو اللہ کے حکم سے اور کسی کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا تو اللہ کے حکم سے آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں تو اللہ کے حکم سے اور زمین کا کوئی ٹکڑا فصل پیدا کرتا ہے تو اللہ کے حکم سے کیا یہ سارے کام معجزات ہیں۔ کیا یہ سب کام قانون قدرت کے مطابق نہیں ہو رہے ؟ بلاشبہ یہ سارے کام قانون قدرت کے مطابق ہیں اور سارے کام ہی ” باذن اللہ “ ہیں کسی کام کے ” باذن اللہ “ ہونے کے یہ معنی ہرگز ہرگز نہیں کہ وہ قانون قدرت کے خلاف ہے اس لیے ” باذن اللہ “ ہے۔ بالکل اسی طرح سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا نفخہ نبوت و رسالت بھی اللہ کے اذن سے ہے اور کفر کے موت مرنے والوں کو جب اسلامی زندگی نصیب ہوجائے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے ہوگی۔ منافقین ملت کا اگر نفاق سے نکلنا ہے تو وہ اللہ ہی کے حکم سے ہو سکتا ہے ورنہ کسی نبی و رسول کے اختیار میں اللہ نے کسی کی ہدایت نہیں دی کہ جب چاہے کسی کو ہدایت دے دے۔ رسول کا کام پیغام رسالت پہنچانا ہے بس پھر جو کوئی اس کی لائی ہدایت کو مانتا ہے تو فائدہ اس کا اپنا ہے اور بالکل اسی طرح نہ ماننے والے کا نقصان بھی اپنا ہی ہے۔ قانون الٰہی سے کوئی چیز بھی باہر نہیں اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ همیں ان معجزات کے معجزات ہونے سے نہ انکار ہے نہ کوئی شک ہے ہمیں انکار ہے تو صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی صفات خاص بندہ میں تسلیم کی جائے ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات ایک بندہ میں تسلیم نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی کوئی انسان ان کی کلی صفات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ مسیح (علیہ السلام) سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ ” اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں “ اور سارے رسولوں کا یہی حال ہے جو سیدنا مسیح (علیہ السلام) کا ہے۔ یاد رہے کہ نبی و رسول کی بعثت کا مقصد کائنات کی رشدو ہدایت اور دین و دنیا کی فلاح و خیر کی رہنمائی تھا اور وہ منجانب اللہ وحی کی روشنی میں اس فرض منصبی کو انجام دیتے تھے اور علم وبرہان اور حجة حق کے ذریعہ راہ صداقت دکھاتے تھے۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ فطرت اور ماورائے فطرت مامور میں تصرف و تغیر بھی ان کا کار منصبی ہے بلکہ وہ بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ ہم خدا کی جانب سے بشیر و نذیر اور داعی الی اللہ بن کر آئے ہیں۔ ہم انسان ہیں اور اللہ کے نبی و رسول اس سے زائد اور کچھ نہیں تو پھر ان کے دعوئے صداقت کے امتحان اور پرکھ کے لیے ان کی تعلیم ان کی تربیت اور ان کی شخصیت کا زیر بحث آنا یقیناً معقول لیکن ان سے ماوراء فطرت عجائبات غرائب کا مطالبہ خلاف عقل اور بےجوڑ سی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور یوں نظر آتا ہے کہ کسی طبیب حاذق کے دعویٰ حذاقت طب پر اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ طلسمی طور پر ایک لوہے کی الماری یا لکڑی کا ایک عجیب قسم کا صندوق بنا کر دکھائے۔ آخر کیوں ؟ اس لیے کہ طبیب نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ایک ماہر لوہار یا بڑھئی ہے بلکہ اس کا دعویٰ تو امراض جسمانی ہی کا ہے۔ اسی طرح کسی نبی و رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے کائنات پر ہمہ قسم کے تصرف و تغیر کا مالک و قادر ہے بلکہ ہر نبی کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ تمام امراض روحانی کے لیے ایک طبیب کامل اور حاذق و ماہر ہے۔ پس دعویٰ نبوت اور ان فرضی کہانیوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان باتوں کو معجزات کا نام دیاجاسکتا ہے۔ ہاں ! ان امراض روحانی کے علاج کے لیے انبیاء کرام آتے رہے جن بیماروں نے انبیاء کرام کا لایا ہوا علاج قبول کیا اور پرہیز بھی کی وہ یقیناً صحت مند ہوئے ہاں ! ان کا صحت یاب ہونا بھی من جانب اللہ ہی تھا اور اب انبیاء کرام کا سلسلہ ہمارے نبی اعظم و آخر پر ختم کردیا گیا اور انبیاء کرام کی اسی وراثت کے حق دار علمائے حق قرار دیے گئے لیکن بد قسمتی سے علمائے حق کا سلسلہ روز بروز تنگ ہوتا گیا اور اس کی جگہ علمائے سُؤ نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ بلاشبہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ انبیاء کرام سے معاندین تو معاندین ماننے والوں نے بھی خلاف عقل اور ماورائے فطرت باتوں کا مطالبہ کیا اور ایسے ایسے بوگس مطالبات کیے جن کا انبیاء کرام کی دعوت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر یہ بات بھی یقینی ہے کہ معاندین کے ان مطالبات کا مقصد راہ ہدایت قبول کرنا نہیں تھا بلکہ الٹا مذاق اور تمسخر ہوتا تھا۔ اسی جگہ ہم دونوں قسم کے لوگوں کی ایک ایک مثال پیش کرتے ہیں اس کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے بیسیوں مثالیں خود تلاش کرسکیں گے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کے ماننے والوں نے یہ مطالبہ کیا : اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ 1ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (المائدہ 5 : 112) ” اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ حواریوں نے کہا تھا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمان سے ہم پر ایک خوان اتار دے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں یعنی ماننے والوں نے جو سوال کیا تھا ذرا بغور پڑھ لو ” اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تمہارا پروردگار آسمان سے ہم پر ایک خوان اتار سکتا ہے ؟ “ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب بھی غور سے پڑھ لو کہ ” خدا سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ گویا حواریوں کا سوال سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھا کہ ایمان کے منافی ہے۔ ایمان والے آدمی ایسا سوال نہیں کرتے کیوں ؟ اس لیے کہ اس سوال کا تعلق نبوت و رسالت کے پیغام کے ساتھ مطلق نہیں۔ یہ سوال اس دعوت کے متعلق نہیں جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کی تھی اور غیر متعلق سوال اگر ایمان کے منافی نہ بھی ہو تو اس کو اچھا بہرحال نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی یہ سوال عقل مندی اور سمجھ داری کا سوال کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ دعویٰ نبوت و رسالت کے متعلق نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ مائدہ نازل ہوا یا نہیں ہوا اگر ہوا تو کیسے اور اگر نہیں نازل ہوا تو کیوں ؟ اور آیت کی مکمل تشریح تو ان ساری باتوں کا جواب تو اپنے مقام ہی پر ہوگا۔ هاں ! اس وقت تو غور کرنے کی یہ بات ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات میں سے جن کا مظاہر انہوں نے قوم کے سامنے کیا تھا ہمارے مفسرین نے قرآن کریم کے چار معجزوں کا بصراحت ذکر کیا ہے کہ 1 وہ خدا کے حکم سے مردہ کو زندہ کرتے تھے۔ 2 اور پیدائش نابینا کو بینا اور جذامی کو چنگا کردیا کرتے تھے۔ 3 وہ مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک دیتے تھے اور خدا کے حکم سے اس میں روح پڑجاتی تھی۔ 4 وہ یہ بھی بتا دیتے تھے کہ کسی نے کیا کھیا ہے اور کیا خرچ کیا ہے اور کیا کیا گھر میں ذخیرہ محفوظ رکھا ہے ؟ مسیحا کے یہ چار معجزات ملاحظہ کرچکنے والے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ” اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمان سے ہم پر ایک خوان اتار دے “ گویا آسمان سے ایک خوان کا اتارنا اتنا بڑا کام ہے جو مردوں کو زند کرنے۔ پیدائشی نابینوں کو بینا کرنے اور جذامیوں کو چنگا کرنے اور مٹی سے پرند بنا کر ان میں روح پھونک کر زندہ کرنے۔ اس بات کی خبر دینے سے کہ آج تم نے کیا کھایا اور کیا ذخیرہ کیا کوئی بڑا کام ہے کہ اب جب خوان اترے گا اور وہ خوان کے اترنے کا شاہدہ کریں گے تو ان کی ایمانی قوت بڑھ جائے گی۔ غور کرو کہ جب لوگوں کے ایمان کو مردوں کے زندہ ہونے ، نابینوں کے بینا ہونے کوڑھیوں کے چنگا ہونے اور پرندے بنا کر ان میں روح پھونکے سے تقویت نہیں ہوئی وہ اگر خوان کو دیکھ لیں گے تو کیسے تقویت مل جائے گی ؟ ہاں ! اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بھی مردوں کے زندہ کرنے وغیرہ کے الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں۔ بلکہ یہ ایک تمثیلی بیان ہے پھر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں کہ حواریوں کی زبان سے یہ جملہ سن کر ” کیا آپ کا رب طاقت رکھتا ہے کہ آسمان سے خوان نازل کرے “ حوارویں کو فرماتے ہیں کہ ” خدا سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ یہ نہیں فرماتے کہ میں تمہارے مردے زندہ کردیتا ہوں۔ تمہارے نابینا بینا کردیتا ہوں اور تمہارے کوڑھیوں کو چنگا کردیتا ہے اتے معجزات دیکھنے کے بعد تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ” کیا تیرا رب طاقت رکھتا ہے کہ خوان نازل کر دے۔ “ بلکہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو جواب دیتے ہیں کہ ” خدا سے ڈرو اور ایسی فرمائشیں نہ کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری کہتے ہیں کہ : ” ہمارا مقصود اس سے قدرت الٰہی کا امتحان نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں غذا میسر آئے تو اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تم نے جو کچھ بتلایا وہ سچ تھا : ” وَنَعْلَمُ اَنْ قَدٰصْدَقْتَنَا “ ” اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں ۔ “ (المائدہ 5 : 113 ) پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ سے درخواست کرتے ہیں ” اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لیے اگلوں اور پچھلوں سب کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے فضل و کرم کی ایک نشانی ہو۔ ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ “ (المائدہ 5 : 114 ) اس درخواست ہی سے خوان کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ خوان سے مراد کیا ہے ؟ خصوصاً یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) حواریوں کی فرمائش کے لیے کیا چاہتے ہیں ؟ وَاُرزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّزِقِیْنَ. اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست کا جواب اس طرح دیتے ہیں ” میں تمہارے لیے خوان بھیج دوں گا لیکن جو شخص اس کے بعد بھی راہ حق سے انکار کرے گا تو میں اسے پاداش عمل میں عذاب دوں گا ایسا عذاب کہ تمام دنیا میں کسی آدمی کو بھی ایسا عذاب نہیں دیا جائے گا۔ “ (المائدہ 5 : 115) یہ الفاظ خود اس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو حواریوں کا ایسا سوال غیر معقول نظر آیا تھا اور ان کو جواب دیا تھا کہ ” اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو “ اللہ تعالیٰ کو بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا سوال بھلا معلوم نہ ہوا اس لیے ان کو خوب ڈانٹ پلا دی جیسا کہ سورة مائدہ کی آیت 115 کے حوالے سے اوپر درج ہوچکا۔ یہ تو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت ماننے والوں کے ایک مطالبہ کا بیان تھا۔ پھر ان کے اس غیر معقول مطالبہ کا جو حشر ہوا وہ آپ پڑھ چکے اب آپ نبی اعظم و آخر ﷺ کا حال پڑھیں کہ جب آپ ﷺ کی دعوت ارشاد و تبلیغ حق کے روشن دلائل وبراہین کا کوئی جواب مخالفین سے نہ بن پڑا تو ازراہ تعنت و سرکش عجائبات اور خوارق عادات امور کا مطالبہ کرنے لگے حالانکہ ان کے مطالبہ کا تعلق نبوت و رسالت سے کچھ بھی نہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی پیغمبر اعظم و آخر ﷺ کو اطلاع دی کہ آپ ﷺ ان سے کہه دیں کہ میں ان تصرفات کا مدعی نہیں ہوں۔ میں تو نیک و بد امور میں تمیز پیدا کرنے ، خدا کے بندوں کا خدا کے ساتھ رشتہ ملانے اور نیک و بد کاموں کے انجام کو واضح کرنے کے لیے ” نبی و رسول “ ہوں۔ قرآن کریم نے اسی طرح اس کا ذکر فرمایا : وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ0090 اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًاۙ0091 اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِیْلًاۙ0092 اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِ 1ؕ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ 1ؕ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (رح) 0093 (بنی اسرائیل 17 : 90 تا 93) ” اور مخالفین نے کہا ہم تو اس وقت تک تجھے ماننے والے نہیں جب تک کہ تو اس طرح کی باتیں کر کے نہ دکھا دے مثلاً ایسا ہو کہ تو حکم کرے اور زمین سے چشمہ پھوٹ نکلے یا تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے درمیان بہت سی نہریں رواں کر کے دکھا دے جیسا کہ تو نے خیال کیا ہے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہم پر آگرے یا اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آکھڑے ہوں یا ہم دیکھیں کہ سونے کا ایک محل تیرے لیے مہیا ہوگیا ہے یا ایسا ہو کہ تو بلند ہو کر آسمان پر چلا جائے اور اگر تو آسمان پر چلا بھی گیا تو بھی ہم یہ بات ماننے والے نہیں جب تک کہ تو ایک لکھی لکھائی کتاب ہم پر نہ اتار لائے اور ہم خود اسے پڑھ کر جانچ لیں۔ اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں سے کہه دے ” سبحان اللہ ! میں نے کچھ خدائی کا دعویٰ تو کیا نہیں میں اس کے سوا کیا ہوں ؟ کہ ایک آدمی ہوں پیغام حق پہنچانے والا۔ “ ان دونوں مثالوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ تعلیم حق کی روشنی وحی الٰہی پر دلائل وبراہین کا یقین اور اصول دین پر حجة وبرہان کا قیام ہوتے ہوئے ان مخالفین کے بار بار طلب معجزات و عجائبات کی پرواہ نہ کی جائے اور نبی و رسول وحی الٰہی کی روشنی میں حجة وبرہان کے ذریعہ تعلیم حق جاری رکھیں اور مخالفین یا ماننے والوں کی بےوقوفی کے سوالات کے جواب میں صاف صاف کہه دے کہ میں نے ماورائے فطرت پر قدرت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا تو اس صورت میں بندوں پر خدا کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور کسی امت اور قوم کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ تعلیم حق کے دلائل وبراہین کی روشنی حجت و بینہ سے اس لیے منہ پھیرے اور اس لیے اس کا انکار کردے کہ اس کی طلب پر اچھنبوں اور عجائبات کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) جن اندھوں کو بینا اور جن مردوں کو زندہ کرتے رہے : 116: سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی تمثیلات واستعارات میں جن مردوں کو زندہ ، جن اندھوں کو بینا ، جن کوڑھیوں کو چنگا اور جن کی ہیئت میں پرندوں کی سی پرواز کا ذکر ہے وہ وہی مردے ، اندھے اور کوڑھی ہیں جن کے علاج کے لیے وحی الٰہی کا بندوبست کیا گیا تھا اور جن بیماروں کے لیے ابو البشر آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی اعظم و آخر محمد رسول اللہ ﷺ تک بارے انبیاء کرام مختلف ادوار میں مختلف قوموں کے پاس بھیجے جاتے رہے۔ ان مردوں ، بہروں اور کوڑھیوں کا ذکر پہلے تفسیر البقرہ کے حاشیہ نمبر 39 میں تفصیل سے گزر چکا ہے وہاں ملاحظہ کرلیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خبر دینا کہ تم نے کیا کچھ کھایا اور کیا ذخیرہ کیا : 117: عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ” جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرکے جمع کرتے ہو سب تمہیں بتلا دوں۔ “ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے مظاہرہ کی وجہ سے پیش آئی کہ مخالفین جب ان کی دعوت رشد و ہدایت سے نفور ہو کر ان کو جھٹلاتے اور ان کی پیش کردہ آیات بینات کو سحر اور جادو کہتے تو ساتھ ہی ازراہ تمسخر یہ بھی کہه دیا کرتے تھے کہ اگر خدا کے ایسے مقبول بندے ہو تو بتاؤ آج ہم نے کیا کھایا ہے اور کیا بچا رکھا ہے تب عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے تمسخر کو سنجیدگی سے بدل دیتے اور وحی الٰہی کی نصرت سے ان کا سوال کا جواب دے دیا کرتے۔ (البدایہ والنہایہ جد 2 ص 82) لیکن قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہاں کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا جس کا آپ نے جواب دیا بلکہ قرآن کریم نے جس انداز سے اس کو بیان کیا ہے اس کو غور کے ساتھ مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پیغام ہدایت و تبلیغ حق کی خدمت انجام دیتے ہوئے اکثر و بیشتر لوگوں کو دنیا میں انہماک ، دولت و ثروت کے لالچ اور عیش پسند زندگی کی رغبت سے باز رکھنے پر مختلف اسالیب بیان کے ذریعہ دلایا کرتے تھے تو جس طرح بعض سعید روحیں اس کلمہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کرتی تھیں اس کے برعکس شریر النفس انسان کے مواعظ حسنہ سے نفرت و اعراض کے باوجود باور کراتے کہ ہم تو ہمہ وقت آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ لہٰذا قدرت حق نے یہ فیصلہ کیا کہ ان منافقین کی منافقت کی مضرت کو زائل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسا ” نشان “ عطا کیا یعنی ان کے حال سے باخبر کردیا گویا یہ پیغام نبوت تھا جو عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچایا گیا اور اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو حقوق اللہ اور حقوق انسانی کے اتلاف پر جو وہ کھاتے اور جو ذخیرہ اندوزی کرتے اس کی حلت و حرمت سے ان کا آگاہ کردیتے جس سے ان کے سارے کئے دھرے کا پردہ چاک ہوجاتا۔
Top