Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 37
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
آپ ﷺ (میری طرف سے) فرما دیجئے کہ اے میرے بندو ! جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرتے رہو (یاد رکھو کہ) جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک کام کیے ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کے صبر کا پورا پور اجر ملے گا جو (اَجر ملنے والوں کے لیے) بےحساب ہو گا
جن لوگوں کو گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے جاننے والے کہا اب ان کو مخاطب کر رہا ہے 10۔ جو اللہ کے نزدیک جاننے والے ہیں ان کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے اور مخاطب کرتے وقت ان کو ایمان والو ! کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کو حقیقت میں ایمان والے کہا جاسکتا ہے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ہی ہو جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہو اور اس بات کے مستحق ہو کہ تم کو دنیا میں بھی نیک کہا جائے اور آخرت میں بھی۔ فرمایا جاہل طبقہ یعنی وہ لوگ جن کو گزشتہ آیت میں نہ جاننے ولاے کہا گیا ہے اگر وہ تم کو تنگ کرلیں اور تمہارا جینا دوبھر کردیں تو وہاں سے ہجرت کر جائو جہاں انہوں نے تمہارا ناطقہ بند کردیا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی اور کشائش پاء گے اور اگر تم ہجرت نہ کرسکو یا تمہاری ہجرت کرنے پر کوئی بات مانع اور روک ہو تو ان نہ جاننے والوں کے مقابلہ میں ڈٹ جائو اس لیے کہ اب تمہارے جاننے والے ہونے کی یہی اصلیت ہے اگر تم ان جاہلوں کے مقابلے میں ڈٹ جائو گے تو یقینا تم آخرت کے اجر کے مستحق ہو جائو گے اور تم میں سے بہت سے لوگوں کو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل کردیا جائے گا یہی جنت تمہارا اجر ہوگی۔
Top